سبھی عنوان میرے- ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کی تصنیف
تبصرہ: ملک عمران
(ریاض/سعودی عرب )
کچھ تعلق رشتے ناطے جن سے دلی لگاؤ ھوتا ھے ان سے انسان کا مزاج ملتا ھے وہی انسان سرمایہ زیست ھوتے ہیں جو من کو بھاتے ہیں ہر لمحہ سایہ بن کر آپ کے ساتھ کھڑے ھوتے ہیں آپ کی راہنمائی کرتے ہیں دوستی اور تعلق کا حق ادا کرتے ہیں اور آج کل کے مادہ پرستی اور نفسا نفسی کے دور میں ایسی شخصیات ناپید ہیں مگر مجھے خوشی ھوتی ھے کہ میرے حلقہ احباب میں
ڈاکٹر شجاع اختر اعوان جیسے دیرینہ دوست شامل ہیں جن سے میرا تعلق گزشتہ دو عشروں پر مشتمل ھے ڈاکٹر صاحب کا شمار ملک کے ممتاز کالم نگاروں میں ہوتا ھے گزشتہ دنوں ان کی منتخب کالموں و مضامین پر مشتمل کتاب سبھی عنوان میرے منصہ شہود پر آئی یہ ان کی تیسری تصنیف ھے ان کی تحریریں اس قدر عمدہ اور سادہ انداز میں لکھی گئی ہیں کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسے اچھوتے، کالمز لکھنا بہت کم لوگوں کے حصے میں آتے ہیں
ہمارا تعلق تب قائم ھواء جب ہم روزنامہ پاکستان کے لئیے علاقائی رپورٹنگ کے فرائض انجام دیتے تھے ڈاکٹر صاحب اٹک جبکہ میں حسن ابدال سے اس اخبار سے منسلک تھا میں نے ڈاکٹر صاحب کے اخبار پی ایم اے ٹائمز کے لئیے رپورٹنگ کی زمہ داری بھی ادا کی میں ڈاکٹر صاحب کے منفرد مزاج اور شخصیت کا دیوانہ ہوگیا. بولنے کا انداز سیدھا دل پر اثر کرتا مزید کھوج لگائی تو ان کی طرف سے لکھی گئی مزے دار اور سبق آموز تحاریر پڑھنے کو ملیں. ان کی دو کتابیں ”خراج تحسین اور آو میلاد منائیں کے علاؤہ ان کی زیر ادارت ادبی مجلہ جمالیات بھی باقاعدگی سے میرے مطالعہ میں رہا ان کا اچھوتا اسلوب ادب کی دنیا میں دھوم مچاتا گیا
جس طرح سادہ اور دیسی مزاج بولنے میں اپناتے ہیں، اس سے کہیں بڑھ کر لکھنے کا انداز براہِ راست دل اور دماغ پر اثر کرتا ہے. یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ قاری کے سامنے براجمان ہیں اور انتہائی شفقت، محبت اور پیار بھرے انداز میں قاری کو سمجھا رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں سوہنیا سوچنے کا زاویہ تبدیل کر لے، دنیا بدل جائے گی۔
ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کے کالم ایسے دل چسپ اور سبق آموز ہوتے ہیں کہ قاری رشک کرتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کاش میرے پاس اتنی فرصت ھوتی کہ میں کسی موضوع پر کتاب لکھ سکتا مگر غم روزگار سے فرصت نہ ملی سبھی عنوان میرے میں شامل ہوں تو سب ہی تحریریں دل میں اترنے والی ہیں مگر چند کالم ایسے ہیں جو انتہائی اہم نوعیت کے ہیں اور ہمارے معاشرے کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں ۔۔بھیڑویوں کے جسموں پر ہرنیوں کی کھالیں ۔اخلاقی اقدار اور وقت کا تقاضا ۔عدلیہ مقدمات اور انصاف انسانی سمگلنگ و دیگر شامل ہیں جبکہ مقامی مصنفین کی کتابوں پر تبصرے پڑھ کر تو یوں محسوس ھوتا ھے کہ جیسے مصنف کی پوری کتاب کا مطالعہ کر کیا اس جامع انداز سے ڈاکٹر صاحب کے تبصرے شامل ہیں یاد رفتگاں میں مرحوم شخصیات کے تذکرے کر کے انھوں نے ان شخصیات سے نئی نسل کو روشناس کروا دیا سبھی عنوان میرے ایک اہم تصنیف ھے جس کا مطالعہ صحافت کے طالب علموں کے لئیے اشد ضروری ھے آخر میں دعا ھے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کے قلم کو اور ترقیاں دے اور انہیں صحت والی زندگی عطا فرمائے آمین
ملک عمران
(ریاض/سعودی عرب )
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔