تعارفی نشست-سائبان کرم

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کی وقیع صفت سے متصف کرنے کے باوجود کمزور پیدا کیا ہے جس کو زندگی کے میدان میں کامیابی اور اٹھان کے لیے ایک مضبوط اور محکم سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سہارا سائبان کی صورت میں اس کا خالق اور رسولِ ہدایت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو ہمیشہ اپنے بندے اور امتی کی دستگیری کرتے رہتے ہیں۔

تعارفی نشست,سائبان کرم


اظہارِ خیال کا بہترین ذریعہ شاعری ہے اسی لئے ہر کوئی اپنے ذوق ،نصیب ،عطا اور سعادت کے اعتبار سے اصنافِ شاعری میں طبع آزمائی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی سائبان کرم انہی شعراء کو نصیب ہوتا ہے جو حبیبِ خدا کا نعت گو بن جاتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت سب کو کریمین کے کرم اور فضل و عنایت سے برابر حصہ ملتا ہے ۔ اگر نسائی تقدیسی ادب کا جائزہ لیں تو اس کا سلسلہ بہت پرانا اور روشن نظر آتا ہے اور اسی کے تسلسل کو دیکھیں تو عصرِ حاضر میں بھی اس سلسلة الذہب میں کئی نام سامنے آئے ہیں لیکن ان میں محترمہ سمعیہ ناز صاحبہ اپنی معیاری پہچان بنانے میں بہت حد تک کامیاب ہوئی ہیں کیونکہ آپ کے ہاں خلوص کی دولت خالص شکل میں وافر ملتی ہے ،آپ کے اشعار سادگی سے مزیّن اور تصنع و بناوٹ سے بہت دور نظر آتے ہیں کیونکہ آپ کی شاعری حضور ﷺ کے پاکیزہ عشق اور محبت سے معمور اور مرصّع ہے جس میں مضامین کا تنوع ،فنی و عروضی پختگی ،اظہارِ خیال میں مٹھاس ،کیف اور لطف کی سرشاری جیسی صفات بھی نمایاں طور پر آپ کو دیگر شاعرات سے ممتاز کرتی ہے ۔ آپ کی شاعری میں مدینہ کا تذکرہ بہت محبت سے کیا جاتا ہے جو اشعار کو پرکیف بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جس کا مظاہرہ نیچے شعری انتخاب میں کھل کر واضح ہو گا تو آئیے کرم کے اس سائبان سے کچھ نگینے چنتے ہیں تاکہ آپا سمعیہ کی طرح ہمیں بھی اس کرم کے چند چھینٹے نصیب ہو جائیں
جب جب درود بھیجوں میں تیرے مصطفٰی پر
ہو جائے درد مرہم پروردگار عالم
اس اوج پہ کوئی نہیں پہنچا شہ بطحاؐ
اک آپؐ نے پائی ہے یہ رفعت شبِ معراج
ثنا کے پھول انہیؐ کے کرم سے کھلتے ہیں
وگرنہ کون سا ایسا کمال ہے مجھ میں
ہر ایک لمحہ انہیںؐ کی یادیں ،ملی سکینت انہی کے دم سے
بنامِ آقا ہر ایک مشکل قدم قدم پر مری ٹلی ہے
دیکھا خدا کا جلوہ عرشِ علی پہ جا کر
کتنی عظیم ہیں وہ میرے نبی کی آنکھیں
کسی بھی غیر کے در کی نہیں مجھے عادت
مجھے تو بھیک ملی ہے سدا مدینے سے
بلاشبہ گناہوں میں ہیں غرق سارے امتی
مگر شفیع مذنبین نبھا رہے ہیں صبح و شام
یہ اجالے سے جو بکھرے ہیں مرے چاروں طرف
یہ مدینے کی فضاؤں کا اثر لگتا ہے
گذرا ہے ان کی یاد میں لمحہ جو اشک بار
صد شکر وہ حیات پہ احسان کر گیا
جب سے توفیق نعت کی پائی
اس کو عرضِ ہنر میں رکھا ہے
خوشا وہ پیکرِ صدق و وفا تشریف لے آئے
جہاں میں مخزنِ جود و عطا تشریف لے آئے
مرکزِ محفلِ مدحت مرا آنگن ٹھہرے
خوشبوئے نعت سے مہکا ہوا گلشن ٹھہرے
اس دن ہوئی توقیر مآب اور زیادہ
پایا ہے جو نزدیک وہ باب اور زیادہ
ان کی سنت سے ہی کردار سنوارا اپنا
اسوۂ سیدِ والا سے محبت کی ہے
دے رہی ہے احترامِ آدمیت کا سبق
نور کی روشن تجلّی حسنِ سیرت آپ کی
دل و نظر میں مدینہ بسا کے چلتے رہے
متاعِ زادِ سفر ہم اٹھا کے چلتے رہے
توصیفِ مصطفٰی سے رکھی ہے زبان تر
صد شکر غیر کی کبھی ہم نے ثنا نہ کی
گھر بار ،کاروبار ، زر و مال ، رختِ جاں
صدیق نے حضورﷺ پہ قربان کر دیا
شاہِ والا کے نواسوں پہ مری جان فدا
ان کی اولاد کا دشمن مرا دشمن ٹھہرے
اولاد جان و مال نبیؐ پر جو وار دیں
بکتے وہی غلام ہیں بے دام عشق میں
دلائی مصطفٰی نے عظمت و توقیر عورت کو
کوئی عزت نہ تھی اس کی خدا کی اس خدائی میں
انگشت کے اشارے پہ ٹکڑے ہوا قمر
حکمِ نبی سے مہرِ فلک ضوفشاں ہوا
نہیں ہے آسرا جس کا کوئی زمانے میں
ہیں آپ اس کے لیے مثلِ سائبانِ کرم
اس عمدہ ،معیاری اور بہترین مجموعے کو بجا طور پر کامیاب خیال کرتا ہوں کیونکہ معاصر عہدِ نعت کے بہت سے مشاہیر نے اپنے تاثرات رقم کر کے اسے نعتیہ ادب میں بہترین اضافہ قرار دیتے ہوئے کامیابی کی سند سے نوازا ہے جو میری دانست میں بہت بڑی کامیابی ہے
جن مشاہیر نے اپنا اظہارِ خیال کیا ان میں ڈاکٹر ریاض مجید صاحب ،ڈاکٹر عزیز احسن صاحب ،سید صبیح رحمانی صاحب ،سید راشد اسلم خیرآبادی صاحب ،جناب سرور نقشبندی صاحب ،سید مقصود علی شاہ صاحب ،مجید منہاس صاحب ،عبدالغنی تائب صاحب اور عارف قادری صاحب شامل ہیں جن کی آراء سے یقیناً یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ آپ کی شاعری کا معیار اور مقام کس درجے کا ہے کیونکہ یہ شخصیات اس میدان میں وقیع مقام رکھتے ہیں ۔
ان اصحاب کی آراء کی روشنی میں یقیناً مستقبل میں محترمہ سے آئندہ بھی معیاری اور حد درجہ بہترین مجموعوں کی توقع ہے اور دعا ہے جلد ہمیں اس کی زیارت بھی نصیب ہو آمین

muhammad ahmad zahid

محمد احمد زاہد

سانگلہ ہل


تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ماں بولی کا پرچار

منگل فروری 22 , 2022
پنجابی زبان کی ترویج کے لیے 21 فروری 2022 کو باقی ملک کی طرح اٹک میں بھی ایک بہترین پروگرام ترتیب دیا گیا
ماں بولی کا پرچار

مزید دلچسپ تحریریں