روس ، یوکرائن جنگ

تبصرہ :
سیدزادہ سخاوت بخاری

جب خالق کائنات نے حضرت آدم ع کو تخلیق کرکے زمین پر بھیجنے کا ارادہ کیا تو فرشتوں سے مخاطب ہوا ،

” میں زمین پر خلیفہ مقرر کرنا چاھتا ہوں ۔ ( سورة بقرہ آئت 30 )

فرشتوں نے عرض کی ،

” کیا تو اس کو جانشین / خلیفہ مقرر کر ے گا
جو زمین پر فساد پھیلائیگا اور خون بہائے گا ۔
اس پر اللہ نے جواب دیا ،
” جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ” ۔

اس آئت مبارکہ کی تفسیر بہت طویل اور دلچسپ ہے ۔ مثلا ، اللہ کا یہ کہنا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ، اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ، اے فرشتو ، تمہیں شاید بنی آدم کی سرشت ( Disposition ) میں فسادی اور خونی ہونا دکھائی دے رہا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ ان ہی میں رسول ، انبیاء ، اولیاء ، اتقیاء اور صالحین بھی نمودار ہونگے جو ان فسادیوں کو انتشار اور خون بہانے سے روکیں گے ۔

قارئین کرام :

میں عالم ہوں نہ مولوی ، مفسر ہوں نہ محدث بلکہ ایک عام مسلمان ہونے کے ناطے اور اپنے محدود مطالعے کے دائرے میں رہ کر یہ بات سمجھ سکتا ہوں کہ بات ، اگرچہ فرشتوں کی زبان سے نکلی لیکن اللہ تعالی شاید باالواسطہ ( Indirect ) طور پر یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ بنی آدم کے جملہ اوصاف میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ زمین پر فساد پھیلانے کے ساتھ ساتھ خون بھی بہاء سکتا ہے ۔ لھذا تاریخ انسانی کا مطالعہ کریں تو علم ہوگا کہ حضرت آدم کے بیٹے قابیل سے لیکر ، کہ جس نے اپنے سگے بھائی ھابیل کو قتل کردیا تھا ، آج تک اس زمین پر کسی نہ کسی بہانے سے قتل و غارت گری اور فساد جاری ہے ۔

یوں تو دانشوروں نے زر ، زن اور زمین ( Wealth , Woman & Property ) کو فساد کی جڑ قرار دیا ہے لیکن شاید وہ حصول اقتدار یا حکومت کو اس دائرے میں شامل کرنا نظر انداز کر گئے ورنہ اقتدار ، جسے میں ، چودھراھٹ ( Chieftaincy ) کا نام دیتا ہوں ، کو بچانے یا حاصل کرنے کی خاطر کم جنگیں نہیں لڑی گئیں ۔ زر ، زن اور زمین کی لڑائیاں تو افراد ( Individuals ) کے مابین برپاء ہوتی ہیں لیکن اقتدار بچانے یا حاصل کرنے کے لئے لڑی جانیوالی جنگوں میں کئی ایک قومیں اور ملک شامل ہوجاتے ہیں ۔ اس کی ٹھوس مثال پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہیں کہ جس میں پوری دنیاء شامل ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ انہیں عالمی جنگیں کہا جاتا ہے ۔

تاریخ گواہ ہے ، جب سے انسانی تہذیب و تمدن نے جنم لیا ، ہوس اقتدار یا دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کی خاطر ان گنت لڑائیاں لڑی گئیں جن میں لاکھوں افراد کا خون بہاء لیکن ستم ظریفی یہ کہ ، اس خون ریزی اور تباہی و بربادی کے ذمہ دار افراد کو قوموں کی تاریخ میں ھیرو اور فاتح عالم تک کے خطابات سے نواز دیا گیا ۔

تمہید قدرے طویل ہوتی جارہی ہے ۔ آمدم بر سر موضوع اور وہ اس طرح کہ روس اور یوکرائن کی موجودہ کشمکش بھی دراصل عالمی چودھراھٹ کی لڑائی ہے اور اس کی جڑیں تاریخ کے مزاروں میں دفن کئی صدیاں پہلے کی بادشاھتوں تک پھیلی ہوئی ہیں ۔

روس 1922 کے سرخ انقلاب سے پہلے بھی ، بحیثیت بادشاھت اپنے ارد گرد کی تمام چھوٹی بڑی قوموں کو زیر نگیں رکھ چکا ہے تاآنکہ کمیونسٹ پارٹی اقتدار میں آئی اور یوکرین سمیت تقریبا 15 علاقائی ریاستوں کو ملا کر سوویت یونین کے نام سے نہ صرف ایک ملک وجود میں آیا بلکہ اس نے حربی آلات اور فنون میں مہارت حاصل کرکے برطانیہ عظمی ، یورپ اور امریکہ کو چیلینج کرکے کہا ،
ہم جیسا ہو تو سامنےآئے ۔

کم و بیش 70 برس تک دنیاء دو سیاسی دھڑوں ، سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ یا ترقی پسندی کی تقسیم اور شناخت سے گزری ۔ اس عرصے میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان برتری اور سبقت کے لئے سرد جنگ جاری رہی جسے انگریزی میں کولڈ وار ( Cold War) کہا گیا ۔ سوویت یونین یا ترقی پسندی کا نعرہ اس قدر موثر ثابت ہوا کہ امریکہ کے آنگن میں کیوبا کے فیدال کاسترو اور چی گویرا جیسے انقلابی دندناتے پھرے مگر کوئی ان کا کچھ بگاڑ نہ سکا ۔

قصہ مختصر ، 90 کی دھائی کے آخر میں ، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلسل سیاسی چالوں ، سازشوں اور سوویت قیادت کی اپنی نالائقی کی وجہ سے کمیونسٹ سوویت یونین کانچ کی چوڑی کی طرح ٹوٹ کر 15 ریاستوں میں تقسیم ہوگیا جن میں سے ایک کا نام جمہوریہ یوکرائن ہے ۔

روس ، یوکرائن  جنگ
Image by Alexas_Fotos from Pixabay

یہاں پر اس حقیقت کا اظھار بھی کرتا چلوں کہ سوویت یونین کے بکھرنے پر ، ہم مسلمانوں نے شادیانے بجائے اور اسے بہت بڑی فتح قرار دیا لیکن درحقیقت یہی ہماری سب سے بڑی غلطی تھی ۔ سوویت یونین کو توڑ کر ہم نے نہ صرف دنیاء میں موجود سیاسی اور فوجی طاقت کا توازن بگاڑ دیا بلکہ امریکہ کو کھلی چھٹی دیدی کہ وہ جب چاھے جہاں چاھے دندناتا پھرے ۔ مسلمان ریاستوں ، شام ، عراق ، لیبیاء ، افغانستان اور یمن کی اینٹ سے اینٹ بجا د ے ۔ پاکستان کو افغانستان میں استعمال کرکے ردی کی ٹوکری میں پھینک سکے ۔ چاھے تو بیت المقدس کو اسرائیل کا جائز دارالحکومت تسلیم کرلے ۔ اب اسے روکنے ٹوکنے

ور پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

غالب نے کہا تھا ،

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

محترم قارئین کرام :

سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد سے امریکہ نے سوویت بلاک سے نکلنے والے کئی مشرقی یورپی ممالک کو اپنے اتحادیوں کی تنظیم ناٹو ( NATO ) کا ممبر بناکر اپنے ساتھ شامل کرلیا تاکہ وہ دوبارہ روس کے قریب نہ جاسکیں ۔ اسی پالیسی کے تحت وہ ایک عرصے سے یوکرائن کو بھی دانہ ڈال رہا تھا کہ جس کی سرحدیں براہ راست روس سے جڑی ہیں ، تاکہ یوکرائن میں اڈے قائم کرکے روس کا گھیراو کرسکے ۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ امریکہ کا ھدف صرف سوویت یونین ہی نہ تھا بلکہ وہ اپنی راستے سے تمام کانٹے ھٹاکر ، پھولوں سے مزین ایک ایسی راہ نکالنا چاھتا ہے کہ جس پر چل کر وہ پوری دنیاء کا بے تاج بادشاہ بن سکے۔ اگلی باری روس کی تھی جسے روس اچھی طرح سمجھتا ہے اسی لئے اس نے یوکرائن کو ناٹو کی ممبرشپ لینے اور امریکی اتحاد میں جانے سے بارھا منع کیا مگریوکرائینی قیادت امریکہ کے چقمے ، دلاسے اور ہلا شیری میں آکر اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی ۔

روس نے یوکرائین پر گولے بارود کی بارش کردی ۔ لوگ مررہے ہیں ۔ املاک تباہ ہورہی ہیں لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی تماشائی سے زیادہ کوئی کردار ادا نہ کرسکے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہوئی تو ہمارے معتمد ساتھی اور انتہائی قریبی دوست ملک امریکہ نے اعلان کیا کہ ہمارا ساتواں بحری بیڑہ پاکستان کی مدد کے لئے آرہا ہے ۔ ممکن ہے آرھا ہو لیکن ابتک پہنچا نہیں ۔ آپ کو یہ بیڑا کہیں نظر آئے تو بتائیے گا ضرور ۔

SAS Bukhari

سیّدزادہ سخاوت بخاری

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ارباب علی عادل چوہان سے گفتگو

اتوار فروری 27 , 2022
پرائمری تعلیم پرائمری اسکول کوٹ اختر محمد شیخ شکار پور میں حاصل کی اور قرآن مجید مدرسہ احیاء العلوم قادریہ کالج روڈ شکار پور سے ناظرہ تک پڑھ سکا
ارباب علی عادل چوہان سے گفتگو

مزید دلچسپ تحریریں