روہت شرما کی انڈین ٹیم سے چھٹی ؟؟
تحریر محمد ذیشان بٹ
بھارت کی کرکٹ ٹیم، جو دنیا کے امیر ترین کرکٹ بورڈ کے زیر انتظام ہے، اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ ٹیم کے حالیہ کارکردگی پر نظر ڈالیں تو آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں شرمناک شکست اور مسلسل خراب کارکردگی نے پورے کرکٹ حلقے میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ شکست صرف میچز ہارنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ بھارتی کرکٹ کے موجودہ نظام، قیادت، اور کھلاڑیوں کی ذہنی حالت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
روہت شرما، جو ٹیم کے موجودہ کپتان ہیں، ان پر سب سے زیادہ تنقید کی جا رہی ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف چوتھے ٹیسٹ میں شکست کے بعد بھارتی میڈیا اور کرکٹ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ان کی کپتانی ٹیم کو لے ڈوبی ہے۔ روہت شرما کی ذاتی کارکردگی بھی توقعات پر پوری نہیں اتری۔ ایک طرف جہاں بھارتی ٹیم کے شائقین جیت کی امید لگا رہے تھے، وہاں شرما کی غیر مستقل مزاجی اور غیر مؤثر قیادت نے مایوسی کو جنم دیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارتی ٹیم کی اس کارکردگی نے اس عظیم کرکٹ قوم کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ سنیل گواسکر جیسے عظیم اوپنر اور کرکٹ کے لیجنڈز نے بھی اس معاملے پر اپنی رائے دی ہے۔ گواسکر کا کہنا ہے کہ صرف نام کی بنیاد پر کسی کھلاڑی کو ٹیم میں شامل رکھنا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ یہ ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ گواسکر کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ ٹیم میں نئی قیادت اور تازہ توانائی لائی جائے۔
روہت شرما کے حق میں ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی قیادت میں بھارتی ٹیم ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کی دوڑ سے بھی باہر ہو چکی ہے۔ یہ نہ صرف ایک شکست ہے بلکہ پورے بھارتی کرکٹ نظام کے لیے ایک بڑی ناکامی ہے۔ شائقین کا غصہ بھی جائز ہے کیونکہ بھارت جیسی بڑی ٹیم، جس کے پاس بہترین کھلاڑیوں کا ذخیرہ ہے، اس طرح کی ناقص کارکردگی دکھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
جہاں روہت شرما کی کپتانی پر سوالات اٹھ رہے ہیں، وہیں ویراٹ کوہلی کی کارکردگی بھی زیر بحث ہے۔ کوہلی، جو بھارت کے سب سے کامیاب کپتانوں میں سے ایک رہے ہیں، اس سیریز میں اپنی بلے بازی میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیے۔ آسٹریلیا کے خلاف ان کی اوسط صرف 27 رہی، جو ان کے معیار کے بالکل برعکس ہے۔ مزید برآں، کوہلی کا رویہ بھی میڈیا کی سرخیوں میں رہا، جس نے ان پر مزید دباؤ بڑھا دیا ہے۔
بھارتی میڈیا میں اب یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ کپتانی جسپریت بمراہ کو سونپ دی جائے۔ بمراہ نے پہلے میچ میں اپنی قیادت میں ٹیم کو کامیابی دلائی تھی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دباؤ میں کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بمراہ کو ایک باصلاحیت کھلاڑی مانا جاتا ہے، اور ان کی قیادت میں ٹیم کے کھیل میں ایک نئی جان آ سکتی ہے۔
اس وقت بھارتی کرکٹ بورڈ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ان مشکل حالات میں صحیح فیصلے کریں۔ کپتانی کی تبدیلی کوئی معمولی بات نہیں ہوتی، خاص طور پر جب بات بھارتی ٹیم جیسی بڑی ٹیم کی ہو۔ لیکن شائقین اور ماہرین کے دباؤ کو دیکھتے ہوئے، لگتا ہے کہ بورڈ کو یہ قدم اٹھانا ہی پڑے گا۔
اس تمام صورتحال میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ٹیم میں نوجوان کھلاڑیوں کو موقع کیوں نہیں دیا جا رہا؟ بھارت کے پاس ہمیشہ سے ایک مضبوط ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم رہا ہے، جو نئے اور باصلاحیت کھلاڑی پیدا کرتا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں ایسا لگتا ہے کہ تجربہ کار کھلاڑیوں کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے، چاہے وہ اپنی کارکردگی کے مطابق کھیل نہ رہے ہوں۔ اگر بھارت کو اپنی کرکٹ کو آگے لے کر جانا ہے تو نوجوانوں کو موقع دینا ہوگا۔
شائقین کی مایوسی کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ کرکٹ بھارت میں صرف ایک کھیل نہیں بلکہ ایک جذباتی وابستگی ہے۔ جب ٹیم ہارتی ہے تو یہ شکست نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ پورے ملک کے لیے ایک صدمہ ہوتی ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ کو اب چاہیے کہ وہ شائقین کے جذبات کا احترام کرے اور ٹیم کی بہتری کے لیے صحیح اقدامات کرے۔
حالیہ شکستوں کے بعد، یہ واضح ہو چکا ہے کہ بھارتی ٹیم کو نہ صرف قیادت میں تبدیلی کی ضرورت ہے بلکہ کھیل کے بنیادی ڈھانچے پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ ایک نئی حکمت عملی اور واضح وژن کے بغیر، بھارتی کرکٹ کے لیے آگے کا راستہ مشکل ہو سکتا ہے۔
بھارت کے پاس ایک شاندار کرکٹ تاریخ ہے، اور اس نے دنیا کو کئی عظیم کھلاڑی دیے ہیں۔ لیکن اگر موجودہ قیادت اور نظام پر نظر ثانی نہ کی گئی تو یہ تاریخ صرف ماضی کا حصہ بن کر رہ جائے گی۔ شائقین کو امید ہے کہ بورڈ اس چیلنج کو قبول کرے گا اور بھارتی کرکٹ کو دوبارہ اس کے عروج پر لے جائے گا۔
محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |