شاہد اعوان، بلاتامل
ایک سخی غریب، صاحبِ خیال ہو سکتا ہے اور ایک بخیل امیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محرومِ خیال۔ رفعتِ خیال کی تمنا ہو تو مال اور مرتبے کی آرزو سے نجات ضروری ہے، لذتِ وجود سے گریز کرنے والے رفعتِ خیال سے آشنا کرائے جاتے ہیں دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھنے والوں کو بلند خیال عطا کیا جاتا ہے ۔ خدمتِ انسانیت کے مخلص جذبے کو فطرت خود خیال کے زیور سے آراستہ کرتی ہے ۔ بلند خیالی انسان کا وہ وصف ہے جو کوشش سے نہیں نصیب سے ملتا ہے۔ بلند خیال انسان خاک نشیں ہو تب بھی عرش نشین ہوتا ہے۔ رفعتِ خیال چونکہ عطا ہے اس لئے صاحبِ خیال ہمیشہ عطا ہی کرتا ہے اگر کمائی ہوتی تو ہمیشہ سنبھال کر رکھی جاتی، اگر سامان ہوتا تو سجا کے رکھاجاتا، اگر مرتبہ ہوتا تو لوگوں کو ڈارایا جاتا لیکن یہ تو عطا ہے۔۔۔۔ دینے والے کا عمل دینے والے کو دینے کے لئے دیا پس دینے والوں کو اور ایثار کرنے والوں کو بلند خیالی اس لئے ملی کہ وہ خود چراغ کی طرح جلیں اور روشنی بانٹیں ۔
یہ چند سطریں ایسے ہی بلند خیال پولیس آفیسر شہزاد ندیم بخاری کے لئے رقم کی ہیں جو دنیاوی لحاظ سے تو راولپنڈی کے سی پی او ہیں لیکن ان کے باطن میں دکھی انسانیت اور لاچاروں کا درد بھرا ہوا ہے وہ اس درد کو محسوس بھی کرتے ہیں اور اس پر پھاہا رکھ کر درد کی شدت کو دور کرنے کی اپنے تئیں کوشش بھی کرتے ہیں۔ چند روز پیشتر اخبار کی ایک خبر کے ذریعے معلوم ہوا کہ ان کے زیر نگیں ایک پولیس کانسٹیبل کی بیٹی نے والد سے اپنے پسندیدہ سکول میں داخلے کی فرمائش کی مگر باپ بڑے سکول کے اخراجات پورا کرنے کے قابل نہ تھا ۔ خیر اڑتی اڑتی یہ خبر جناب شہزاد بخاری کے کانوں تک بھی پہنچی تو انہوں نے فوری طور پر راولپنڈی کے ایک بڑے سکول میں بچی کا داخلہ کرا دیا ۔ بچی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا وہ شکریہ ادا کرنے ان کے آفس جا پہنچی اور اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے پھولوں کا گلدستہ اپنے محسن کو پیش کیا ۔ سید زادے نے بچی سے پھول لے کر کہا کہ بیٹیاں شکریہ ادا نہیں کرتیں بس فرمائشیں کرتی ہیں‘‘۔ انہوں نے بچی کے والد سے کہا کہ آئندہ بچی کے تمام تعلیمی اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ جناب بخاری کے اس نیک جذبے کو خراج پیش کرنے کے لئے وہ قلم کہاں سے لائوں جو ان کے شایانِ شان رقم کر سکوں۔ یہ تو ایک مثال ہے ان کی سروس توایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے مگر انہوں نے ان ’’پوشیدہ‘‘ رازوں سے کبھی پردہ نہیں اٹھنے دیا ۔ ابھی وہ سروس کی ابتدائی مراحل میں تھے کہ راولپنڈی میں دوران تعیناتی ایک بیوہ خاتون نے ان کو فریاد بھری درخواست دی کہ اس کا جوان بیٹا قتل ہو گیا ہے چونکہ قاتل بااثر شخصیات کا کارندہ ہے اس لئے پولیس اسے گرفتار کرنے سے کتراتی ہے۔ درخواست پڑھتے ہی اے ایس پی شہزاد ندیم بخاری نے قاتل کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر اپنے ماتحتوں کو اس سے بالکل بے خبر رکھا اور خود موقع پر چھاپہ مار کر ملزم کو گرفتار کر لیا۔ بس پھر کیا تھا اس گستاخی پر بطور سزا انہیں راولپنڈی سے تبدیل کر دیا گیا حالانکہ ابھی انہیں یہاں آئے ہوئے بمشکل ایک ماہ کا عرصہ ہی گزرا تھا ۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ جب اس بیوہ کو پتہ چلا کہ اس کے بیٹے کا قاتل گرفتار ہو گیا ہے مگر اسے پکڑنے والے پولیس افسر کو تبدیل کر دیا گیا ہے جس پر اس مظلوم ماں کے دل سے دعا نکلی ’’ایک دن اللہ اسے راولپنڈی کا بڑا افسر بنا کر ضرور لائے گا‘‘۔ ایک دکھیاری ماں کی زبان سے نکلے ہوئے شاید ان الفاظ کا اثر تھا کہ چند سالوں کے اندر وہ واقعی ایک بڑے عہدے پر راولپنڈی میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ شہزاد ندیم بخاری کے ساتھ تعلق خاطر کو ایک دہائی سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے وہ مظلوموں کے ساتھ زیادتی پر تڑپ اٹھتے ہیں وہ جس طرح عوام الناس کے دکھوں کو محسوس کرتے ہیں اسی طرح وہ اپنے ماتحتوں کے دکھ درد میں بھی آگے آگے رہتے ہیں خصوصاٌ شہداء کے خاندانوں کے ساتھ ان کا رویہ قابل ستائش ہے۔ جوانی میں اللہ نے انہیں جومناسب عطا کیے ہیں وہ محکمہ کے لئے بھی ایک ریکارڈ ہے چھ سات اضلاع میں ڈی پی او رہنا کسی اعزاز سے کم نہیں ہے ، خطرات سے ٹکرانا ان کی سرشت میں شامل ہے، سائل کے سامنے اپنی کرسی پر کھڑا ہونا انہوں نے اپنی عادت بنا لی ہے یہی وجہ ہے کہ وطن دشمن اور جرائم پیشہ عناصر کے لئے ان کا نام ہی کافی ہے جن کے سامنے ان کی موجودگی سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہے۔ ان کی جانب سے اپنے ماتحت عملہ کو خاص ہدایت ہے کہ میری عدم موجوددگی میں بھی سائلین کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جائے جو ان کی موجودگی میں برتا جاتا ہے۔ شہزاد ندیم بخاری جیسے افسران ناصرف محکمہ پولیس کے ماتھے کا جھومر ہیں بلکہ وہ اپنے ملک و قوم کے لئے فخر کا باعث ہیں، اللہ ان کے عمل و کردار میں مزید برکتیں اور رفعتیں عطا فرمائے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔