( وقت سے پہلے اور ضرورت سے زیادہ خوشی مناسب نہیں ،
باقائدہ حکومت بننے تک انتظار فرمائیے ۔ ابھی پارٹی ختم نہیں ہوئی ۔
دیکھتے ہیں ،
اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے )
تجزیاتی تحریر :
سیدزادہ سخاوت بخاری
گزشتہ چالیس برس سے افغانستان میں چوہے بلی کا کھیل جاری ہے ۔ چوہے نے ہار مانی اور نہ ہی بلی تھک کر بیٹھی ہے ۔ ویسے تو اس کھیل کی تاریخ ، فاتح عالم سکندر یونانی تک جاتی ہے لیکن اتنے دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے لئے اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے سوویت یونین سے امریکہ تک کی کہانی ہی کافی ہے ۔ بلکہ اس سے بھی پہلے یہ کھوج لگانا اور سمجھنا ضروری ہے کہ آخر یہ سب طاقتور ملک ، یہ طاقتور چودھری ( Super Powers ) ، اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے افغانستان ہی کیوں آجاتے ہیں ۔ افغانستان میں ایسا کونسا مقناطیس ( Magnet ) اور گیدڑ سنگھی ہے جو ہر ایک کو یہاں کھینچ لاتی ہے ۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے انسانی نفسیات ( Human Psychology ) پہ غور کرنا ہوگا . انسان بنیادی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ۔
اس کے سافٹ وئر ( Soft Ware ) میں لالچ ، طمع
یعنی بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی خواہش رکھ دی گئی ہے ۔ یہاں یہ بھی سمجھ لیں کہ اس خطرناک انسانی خاصیت کو ہی کنٹرول کرنے کی خاطر خالق و مالک کائنات نے , نبی ، پیغمبر اور رسول بھیجے تاکہ انسان حرص اور لالچ کے چنگل ( Grip ) میں پھنس کر گمراہ نہ ہو ۔ نفس کےاس بے قابو گھوڑے کو لگام دینے کے لئے الہامی کتابوں کی شکل میں ضابطہ حیات ( Code of Life ) ناذل کئے گئے تاکہ بنی آدم ایک قائدے اور قانون کے دائرے میں رہ کر فتنہ و فساد سے بچ کر پرسکون زندگی گزار سکے ۔
اب یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایسی بات تھی تو خالق کائنات نے انسان کے اندر لالچ اور طمع کا مادہ رکھا ہی کیوں ؟
عرض ہے کہ ضرورت کے تحت کچھ کرنے یا کچھ حاصل کرنے کی صلاحیت ہی دراصل انسانی زندگی کا انجن ہے اگر یہ قوت متحرکہ نہ ہوتی تو انسان اور پتھر میں کوئی فرق نظر نہ آتا ۔ انسان بھی پہاڑوں اور چٹانوں کی طرح ساکن ، جامد اور غیر متحرک پڑے رہتے ۔ یہاں جاننے اور سمجھنے والی بات صرف اتنی ہے ، کہ یہ انجن صرف ضرورت اور جائز مقاصد کے حصول کے لئے لگایا گیا ہے لیکن اگر اسے ناجائز اور غیر ضروری خواہشات ( Excessive Desire ) کے حصول کے لئے استعمال کیا جائے تو
لالچ ، حرص اور طمع کہلائیگا لھذا اس کی کسی مذھب اور دین میں اجازت نہیں ۔
لالچ ، حرص اور طمع کی مثالیں انسانی سوسائیٹی میں عام ہیں ۔ زمین جائیداد میں بہن بھائی کا حصہ مار لینا ۔ کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرلینا ۔ کسی کے مال و دولت پہ ہاتھ صاف کرلینا وغیرہ ۔
یہی رویہ جب فرد کی حدود سے نکل کر افراد ، گروہوں اور بادشاہوں تک پہنچتا یے تو ملکوں پر قبضے کرلئے جاتے ہیں ۔ حکومتی یا بادشاہی سطح پر اس کے 3 مقاصد ہوسکتے ہیں ۔
1. عسکری قوت سے اپنی سلطنت کو وسعت دینا ، زیادہ سے زیادہ قوموں اور افراد کو محکوم بنانا تاکہ دنیاء پر ان کی فوجی قوت کی دھاک بیٹھ سکے اور نظام دنیاء کو وہ اپنی مرضی اور منشاء سے چلا سکیں ۔
2. کسی ملک اور قوم کے معدنی ذخائر اور مال و دولت کو ہتھیانے کے لئے ان پر بزور شمشیر قبضہ کرلینا ۔
3. کسی ملک کی اگر جغرافیائی حیثیت یعنی محل وقوع ایسا ہو کہ وہاں بیٹھ کر آس پاس کے
دیگر ملکوں اور اقوام کو قابو میں رکھا جاسکے یا وہاں سے مزید آگے بڑھنے میں آسانی ہو تو اس علاقے پر قبضہ کرلیا جائے ۔
یاد رکھیں ، افغانستان پر سکندر اعظم سے لیکر ، برطانیہ عظمی ، سوویت یونین اور اب امریکہ تک ، سبھی یہی مقاصد لیکر حملہ آور ہوئے ۔ یہ الگ بات کہ اس قوم کی مخصوص ذہنی بناوٹ اور افغانستان کے سنگلاخ پہاڑی سلسلوں نے کسی کو یہاں قدم جمانے کی اجازت نہ دی ۔ سبھی نے ایک مدت تک یہاں قیام کیا ، انہیں مغلوب اور محکوم بنانے کی کوشش کی مگر بالآخر واپس جانا پڑا ۔
سابقہ سوویت یونین اور موجودہ روس ، رقبے کے لحاظ سے دنیاء کا سب سے بڑا ملک ہے لیکن بحیرہ عرب تک اس کی رسائی نہیں لھذا اپنے توسیع پسندانہ عزائم لیکر افغانستان چلا آیا تاکہ اس کے معدنی ذخائر پر قبضے کے ساتھ ساتھ وہ اگلے مرحلے میں ، بلوچستان کے راستے بحیرہ عرب تک پہنچ کر تیل سے مالا مال عرب ریاستوں پر اثر قائم کرسکے اور پھر وہاں سے بحیرہ احمر ( Red Sea ) کو عبور کرکے براعظم افریقہ تک رسائی حاصل کرلے لیکن اسے یہیں پہلے پڑاو میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور افغانستان کے سر بہ فلک پہاڑوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا ۔
افغانستان کے محل وقوع پر نظر دوڑائیں تو شمال میں چین ، جنوب میں ایران اور بحیرہ عرب ، مشرق میں پاکستان و بھارت اور مغرب میں سینٹرل ایشیاء اور روس نظر آئیگا ۔ امریکہ بہادر بھی یہ سوچ کر آیا تھا کہ معدنی مال و دولت سمیٹنے کے ساتھ ، اس مرکزی مقام پر بیٹھ کر چاروں سمت واقع ممالک کو بھی آسانی سے قابو میں رکھا جا سکے گا مگر ایسا نہ ہوسکا ۔
معدنی ذخائر کا ذکر آیا ہے تو آپ کی معلومات کے لئے تھوڑا سا اس بارے بھی بتاتا چلاوں جو یقینا آپ کے لئے حیرانی کا باعث ہوگا ۔
افغانستان کے پہاڑوں اور زمین میں چھپی معدنیات :
تانبہ ، لوہا ، سونا ، آئل ، گیس ، کوئلہ ، ماربل ، قیمتی پتھر ، یورینیم ، لیتھیم ، کرومیم ، سیسہ ، جست ، سلفر ، ٹاک ، اسپیشل مٹی اور متعدد دیگر قیمتی خزانے ۔
2019 کے ایک سروے کے مطابق اس ملک میں :
60 ملین ٹن تانبہ
2.2 بلین ٹن لوہا ( آئرن اور )
170 ملین ڈالر مالیت کا سونا
1.6 بلین بیرل آئل
16 ٹریلین کیوبک فٹ گیس
کے ذخائر معلوم کئے جا چکے ہیں اور نہ جانے مزید کتنے ابھی دریافت ہونے ہیں ۔ اگر آپ معلوم ذخائر کی کل مالیت کا اندازہ لگائیں تو اس ملک کے پاس دنیاء کے کسی بھی امیر ترین ملک سے کم دولت نہیں ۔
امید ہے آپ سمجھ گئے ہونگے کہ افغانستان کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے جو بڑی بڑی طاقتیں اس کی طرف دوڑتی چلی آتی ہیں ۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ گزشتہ 40 برس میں کہ جب سے سوویٹ یونین اور پھر امریکہ صاحب تشریف لائے ، بعض ذرائع کہتے ہیں کہ انہوں نے نہ جانے ابتک کسقدر اور کون کونسی معدنی دولت لوٹ لی ہوگی ۔ اس دنیاء میں کوئی عام آدمی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا تو کیا یہ سب دیوانے ہیں جو کھربوں ڈالر خرچ کرکے خالی ھاتھ لوٹ گئے ۔ یہاں یہ بھی نوٹ کرلیں کہ گزشتہ 20 برسوں میں امریکہ نے یہاں جتنے اور جو جو پراجیکٹ مکمل کئے ، ان کے لئے کم و بیش 4000 ٹھیکیدار امریکی شہری تھے اور اسطرح 2.5 ٹریلین ڈالر جو یہاں خرچ ہوئے اس کا ایک بڑا حصہ واپس امریکہ چلا گیا ۔
اب آجائیے افغانیوں کی ذہنی بناوٹ اور سوچ کی طرف جیسا کہ اوپر بیان کیا ، یہ الگ سوچ اور سمجھ کے مالک ہیں ۔ آپ مجھ سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ، کوئی جھجھک نہیں کہ افغانستان اور سینٹرل ایشیاء کے لوگ ، محمود غزنوی ، احمد شاہ ابدالی ، نادر شاہ درانی ، ظہیرالدین بابر اور اس نوع کے دیگر ان معروف حملہ آوروں کی باقیات ہیں کہ جو اپنے اپنے وقت میں درہ خیبر کے راستے ہندوستان آکر لوٹ مار کرتے رہے ۔ ہمارے تاریخ نویسوں کا بھلا ہو ، کہ جو انہیں رحمة اللہ اور نہ جانے کیا کیا القابات دے گئے ۔ آپ اندازہ کریں ایک شخص غزنی سے آکر ہندوستان کے گجرات کاٹھیاواڑ میں سوم ناتھ کا مندر اس لئے توڑتا ہے کہ بت پرستی شرک ہے لیکن ساتھ ہی سونے کی بنی مورتیاں اور مندر میں جمع , مال و دولت ، سونا چاندی ، ہیرے جواھرات ، گدھوں ، گھوڑوں اور خچروں پر لاد کر غزنی لے جاتا ہے ۔ مختصرا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی تبلیغ اسلام کے لئے ھندوستان نہیں آیا بلکہ ہوس ملک گیری اور لوٹ مار ان کو یہاں تک لے آئی ، لھذا ان ہی کی آل اولاد اور باقیات سے آئندہ بھی خیر اور امن کی امید رکھنا نادانی ہوگی ۔
ان تاریخی حقائق کے بعد اب آجائیے آج کی تازہ صورت حال کی طرف ۔ عرض ہے کہ طالبان اچھے ہیں یا برے ، اس سے قطع نظر ، اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ :
1. یہ پلک جھپکتے کیونکر پورے ملک پر قابض ہوگئے ؟
2. اشرف غنی اچانک سے کیوں بھاگ گیا ؟
3. امریکہ کی تربیت یافتہ ساڑھے تین لاکھ فوج کہاں چلی گئی ؟
4. امریکہ اپنے جدید ٹینک ، توپیں ، ھیلی کاپٹر ، طیارے ، آرمرڈ وھیکلز ،
جدید ترین بندوقیں ، ھلکے اور بھاری ھتھیار ، گولہ بارود کے زخیرے اور دیگر جنگی سامان زندہ و سلامت کیوں چھوڑ گیا ؟
5. جنگ کا اصول تو یہ ہے کہ شکست کی صورت میں ، تمام جنگی ساز و سامان تباہ کردیا جاتا ہے تاکہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ سکے ۔
6. کیا امریکہ اور ناٹو والے اتنے بے خبر اور نااہل تھے کہ انہیں آنے والے حالات ، جیسا کہ اب ہورہا ہے ، کے بارے میں کچھ علم نہ تھا ؟
قارئین کرام
ہم اس بات پر خوش ہیں کہ افغانستان سے بھارت کا پتا صاف ہوا ، بیشک خوش ہونا بنتا ہے لیکن کیا بھارت اپنی اس شکست کو قبول کرکے آرام سے سو جائے گا ؟
اورکیا امریکہ اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ وہ اس سارے کھیل کو بھول جائیگا ؟
مجھے تو یہ سب کچھ ایک ڈرامہ لگتا ہے اور یہ بات بھی مشکل نظر آتی ہے کہ طالبان ، افغانستان کے دیگر جدید تعلیم یافتہ اور جمہوریت پسند گرویوں کے ساتھ مل کر کوئی مستحکم حکومت بنا پائینگے ۔ ہم دعاء کرتے ہیں کہ ایسا ہوجائے اور افغانستان میں امن لوٹ آئے لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور بھارت و امریکہ نے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے طالبان اور ان کے مخالف دھڑوں کو آپس میں لڑوا دیا ، تو ہمارا فتح کا خواب ہمیشہ خواب ہی رہے گا اس لئے قبل از وقت خوش نہ ہوں ، اس اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھ لینے دیں ابھی پارٹی ختم نہیں ہوئی ۔
سیّدزادہ سخاوت بخاری
مسقط، سلطنت عمان
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔