پاک افغان تجارتی گزرگاہ کی بحالی
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم کے مقام پر تجارتی گزرگاہ کی بحالی دونوں ممالک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تجارتی گزرگاہ اور چترال کے آرندو مقام پر واقع گزرگاہ کی بحالی دونوں ممالک کے ہزاروں گھرانوں کی روزی اور معیشت کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ افغان فورسز کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور غیر قانونی میں تعمیرات کے باعث پیدا ہونے والی کشیدگی کے نتیجے میں 21 فروری کو اس گزرگاہ کو بند کردیا گیا تھا اس گزرگاہ کی بندش کی وجہ سے دونوں ممالک کو شدید اقتصادی نقصان پہنچا۔ طورخم گزرگاہ دوبارہ کھولنے کا یہ فیصلہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کا باعث بنے گا بلکہ اس سے دوطرفہ تعلقات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
طورخم سرحد تاریخی طور پر برصغیر اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک اہم تجارتی راستہ رہی ہے۔ 1893 میں طے پانے والی ڈیورنڈ لائن معاہدے کے بعد سے یہ علاقہ ایک متنازعہ حیثیت کا باعث بن گیا۔ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد بھی یہ راستہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی، سماجی اور ثقافتی تعلقات کا بنیادی مرکز رہا ہے۔ تاہم مختلف ادوار میں سیاسی اور سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے اس راستے پر کشیدگی پیدا ہوتی رہی ہے۔
طورخم گزرگاہ کی بندش کے نتیجے میں پاکستان کو یومیہ تین ملین ڈالر کا نقصان ہوا، جس کا مجموعی تخمینہ 75 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کو بھی شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ پاکستان افغانستان کا ایک اہم تجارتی شراکت دار بھی ہے۔ اس بندش سے نہ صرف دونوں ممالک کے تاجر متاثر ہوئے بلکہ روزمرہ کے عام افراد کو بھی مشکلات پیش آئیں۔ ہزاروں مال بردار گاڑیاں دونوں جانب پھنس گئیں، جس سے اشیائے خورد و نوش اور دیگر بنیادی ضروریات کی ترسیل متاثر ہوئی۔
طورخم سرحدی تنازعے کے حل کے لیے دونوں ممالک نے مشترکہ جرگے کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی جرگہ کے سربراہ سید جواد حسین کاظمی کے مطابق، افغان جرگہ نے اپنے حکام کو مشترکہ فیصلے پر راضی کر لیا، جس کے بعد 19 مارچ کو سرحد کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ فیصلہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ باہمی گفت و شنید سے بڑے سے بڑا مسئلہ بھی حل کیا جا سکتا ہے۔
دونوں ممالک کو ایک مستقل سرحدی مکالمے کے لیے ایک مشترکہ فورم تشکیل دینا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔
دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل اور قانونی تجارتی معاہدہ ہونا چاہیے تاکہ گزرگاہ کی بندش سے معاشی نقصان کو کم کیا جا سکے۔
طورخم سرحدی علاقے میں مشترکہ سیکیورٹی و انسپکشن یونٹس کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ مستقبل میں غیر ضروری کشیدگی سے بچا جا سکے۔
دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ثقافتی، تعلیمی اور تجارتی سطح پر تعلقات کو فروغ دینا چاہیے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور تعلقات میں بہتری آئے۔
پاکستان اور افغانستان صدیوں سے تاریخی، جغرافیائی، دینی، تہذیبی اور لسانی رشتوں میں منسلک ہیں۔ خوشگوار اور دوستانہ باہمی تعلقات دونوں ملکوں کی ناگزیر ضرورت ہیں۔ طورخم کی تجارتی گزرگاہ کا دوبارہ کھلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ باہمی افہام و تفہیم اور گفت و شنید سے اختلافات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس پیش رفت کو دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں کے لیے ایک مثال بناتے ہوئے دیگر اختلافات کا حل بھی پرامن مکالمے سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دونوں ممالک کی معیشت مستحکم ہو اور خطے میں استحکام اور ترقی کو فروغ ملے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |