"وزیراعظم اور سپہ سالار سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی گزارش”
کراچی کی ‘پورٹ قاسم’ کو کسی زمانے میں ‘دیبل کی بندرگاہ’ کہا جاتا تھا۔ تب اس ساحلی پٹی کا حاکم راجہ داہر تھا جسے عربی سپہ سالار محمد بن قاسم نے شکست دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ داہر بہت ظالم حکمران تھا جس کی رعایا اس سے بہت تنگ تھی۔ اس دوران ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ راجہ داہر کے قزاقوں نے ایک مسلم سمندری قافلے کو لوٹ کر مرد و خواتین کو یرغمال بنا لیا۔ اس قافلے میں ایک فاطفہ نامی قیدی لڑکی بھی شامل تھی جس نے اپنی رہائی کے لئے حجاج بن یوسف کو پکارا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف نے 17 سالہ سپہ سالار محمد بن قاسم کو اسی وجہ سے راجہ داہر کی سرکوبی کے لئے ایک فوجی دستہ دے کر سندھ کی طرف روانہ کیا تھا۔ محمد بن قاسم کی فتوحات کا سلسلہ 711ء سے لے کر 713ء تک جاری رہا جس میں انہوں نے سندھ کے اہم علاقے فتح کئے اور ملتان کو فتح کر کے سندھ کی فتوحات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ محمد بن قاسم کے ہاتھوں سندھ کی فتح کے اس تاریخی واقعہ کو گزرے لگ بھگ 1300 سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے مگر ہم حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم کی مسلم غیرت اور حمیت کو یاد کر کے آج بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن گردش ایام کی ستم ظریفی دیکھیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی اسی قدیم دیبل کی بندرگاہ کی بیٹی ہے جسے پہلے اغواء کیا گیا اور پھر اسے امریکہ کو ڈالروں کے عوض بیچ دیا گیا جو گزشتہ 20 سال سےفاطفہ کی طرح امریکی جیل سے رہائی کی دہائی دے رہی ہے (فاطفہ نامی ایک قیدی لڑکی جس نے اپنی رہائی کے لئے حجاج بن یوسف کو پکارا تھا) مگر کوئی ‘محمد بن قاسم’ اس کی آواز کو سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔
کچھ واقعات اور سنحات دل پر نقش ہو جاتے ہیں، انسان چاہے بھی تو ان کو بھلا سکتا یے اور نہ ہی دل اور روح سے ان کا نقش مٹا سکتا ہے۔ ان میں سے اگر کسی واقعہ کا تعلق ایسا ہو کہ اس کو یاد کر کے انسان درد کی کسی خاص کیفیت کو محسوس کرے تو وہ کیفیت بھی ایسی ہوتی ہے کہ اسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے مگر لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جان کیٹس کی ایک نظم کے ایک مصرعہ کا مفہوم ہے کہ، "ہماری زندگی کے سب سے شیریں گیت وہ ہیں جو ہم اپنے غم کی حالت میں گاتے ہیں۔” اس قسم کے غم کے عالم میں بھی سب سے زیادہ سوہان روح وہ غم ہوتے ہیں جس طرح کا غم آج ہم کچھ دردمندوں کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صورت میں محسوس ہوتا ہے۔
ہمارا وہ کونسا سیاسی لیڈر یے جس نے عافیہ صدیقی کے خاندان سے اس کی رہائی کا وعدہ نہ کیا ہو؟ لیکن جب وہ اقتدار میں آئے تو سب کے سب ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے کئے گیئے وعدوں کو بھول گئے۔ سب سے طمطراق والے وعدے عمران خان نے کیئے تھے مگر جب وہ وزیراعظم بنے اور امریکہ کے دورے پر صدر ٹرمپ سے ملے تو بھیگی بلی بن گئے! شائد وہ منظر سب کو یاد ہو جب ایک پاکستانی صحافی کو وزیراعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے بارے میں سوال پوچھنے سے منع کر دیا تھا۔ ایک اردو اخبار کی خاتون کالم نگار نے عمران خان کی خفگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امریکی صدر سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی بات زبردستی کر دی تھی۔ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے پوچھا کہ یہ خاتون کیا کہتی ہیں؟ معلوم ہے اس پر خان صاحب کا کیا ردعمل تھا؟ خان صاحب نے اپنا منہ دوسری طرف پھیرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا تھا۔۔۔!!!
ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے پاکستان کے حکمرانوں، میڈیا اور سول سوسائیٹی نے حد درجہ بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس جس طرح کیوبا میں موجود گوانتانوبے جیل کے خلاف امریکہ ہی میں ‘بیک فائر’ ہوتا رہا ہے جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے اور خود امریکی عوام قیدیوں کے حق میں آواز اٹھاتی رہی ہے، پہلے سابق امریکی صدر بش اور براک اوبامہ اور اب جوبائیڈن پر اس جیل کو بند کرنے کے لئے دباو’ ڈالا جا رہا ہے اور وہاں سے 20 سال بعد کچھ پاکستانی قیدی بھی رہا ہو چکے ہیں (جنہیں 9/11 کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کے حوالے کیا تھا)، اگر اس معاملے میں کچھ لوگوں نے ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ آواز اٹھائ ہے تو وہ بھی غیرمسلم ہیں جن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے ایک امریکی وکیل بھی کام کر رہا ہے جس کا نام کلائیو سٹیفرڈ اسمتھ ہے جس نے چند ماہ قبل ڈاکٹر عافیہ سے ڈیڑھ گھنٹے تک ملاقات کی۔
اس وکیل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’اس پر کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ ایک کمزور سی لڑکی نے امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر ان پر گولی چلانے کی کوشش کی ہو گی۔”
دنیا جانتی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ ہر قسم کے جسمانی، جنسی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ پہلے افغانستان کی بگرام جیل میں اس پر جسمانی تشدد کیا گیا تھا جس وجہ سے اس کے اوپر والے سارے دانت ٹوٹ گئے تھے، پھر اسے بگرام جیل سے امریکہ بھیجا گیا جہاں ایک عدالت نے اسے کوئی جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود چھیاسی سال قید کی سزا سنا دی تھی۔ اسمتھ اپنی تحریر میں کہتے ہیں کہ ’’جیل میں وہ آج بھی ہر روز ٹارچر کا سامنا کر رہی ہے، آج بھی اسے روزانہ گندی گالیاں دی جاتی ہیں۔” عدالتی فیصلے کے مطابق عافیہ صدیقی 2094 تک قید میں رہے گی۔ تب تک وہ یہ گالیاں ہمیشہ سنتی رہے گی۔
محترم المقام! جناب سمتھ صاحب کہتے ہیں کہ، "میری نظریں پاکستان پر ہیں کہ وہ اپنی اکلوتی معصوم قیدی شہری کی کس طرح مدد کرتا ہے۔ میں کسی معاوضے کے بغیر ہر قسم کی مدد کے لئے تیار ہوں۔ اور میں عنقریب پاکستان بھی جا رہا ہوں۔”
ہاں! ایک غیر مسلم محمد بن قاسم بن کر کراچی آنے کے لئے تیار ہے مگر وہ محمد بن قاسم کہاں ہے جو ہمارے مطالعہ پاکستان میں موجود ہے اور جس کے نام سے ‘دیبل کی بندرگاہ’ کو ‘بن قاسم’ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے؟ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے اچھی سفارت کاری اور امریکہ کو ایک منظم طریقے سے اپروچ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جلد رہا کروایا جا سکے۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور موجودہ سپہ سالار جنرل عاصم منیر احمد سے میری گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر کے جلد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس وطن لے کر آئیں۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔