آئی ایم ایف کے وفد کا حالیہ دورہ پاکستان
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نمائندے پاکستان کا دورہ کررہے ہیں اس دورہ پاکستان کو تاریخی پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے تاکہ مالیاتی اداروں اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا اندازہ ہوسکے اور پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورت حال کے تقاضوں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کا یہ تعلق کئی دہائیوں پر محیط ہے، جس کا آغاز 1958 میں ہوا جب پاکستان نے پہلی بار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے امداد حاصل کی۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلق پیچیدہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات متنازعہ بھی ہو گیا ہے، خصوصاً جب مالیاتی اصلاحات کے اقدامات عام پاکستانی کے لئے بھاری بوجھ بننے لگے۔
حالیہ دورے کا مقصد پاکستان کے مالیاتی استحکام کو مضبوط بنانے اور معاشی اصلاحات کے ان اہداف کی تکمیل میں مدد فراہم کرنا ہے جو کہ آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے پیکیج کے ساتھ منسلک ہیں۔ پاکستانی حکومت نے رواں مالی سال میں ابتدائی قسط وصول کی تھی مگر کچھ اہداف کو حاصل کرنے میں اب بھی کافی مشکلات درپیش ہیں۔ ان مشکلات کے حل کے لیے اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں آئی ایم ایف کے وفد کی قیادت ناتھن پورٹر کر رہے ہیں اور پاکستانی وفد کی سربراہی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کر رہے ہیں۔
اس ملاقات میں مختلف اہم امور زیر بحث آئے، جن میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اہداف کی تکمیل بھی شامل ہے اور نئے ٹیکس اقدامات کے بارے میں بھی گفتگو ہوئی، توانائی سیکٹر کے گردشی قرضے اور آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ مذاکرات بھی ایجنڈے میں شامل ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد مالیاتی پائیداری کو یقینی بنانا ہے مگر موجودہ اقتصادی چیلنجز اور سیاسی عدم استحکام ان پر عمل درآمد کرنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
پاکستانی حکام نے بتایا کہ پہلی سہ ماہی میں ٹیکس مشینری نے ریٹیلرز، تھوک فروشوں، اور ڈسٹری بیوٹرز سے گیارہ ارب روپے جمع کیے، مگر تاجر دوست اسکیم (TDS) سے توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔ آئی ایم ایف نے دو آپشنز پیش کیے ہیں: ایک منی بجٹ کے ذریعے 89 ارب روپے کا محصولاتی خسارہ عوام پر ٹیکس بڑھا کر پورا کیا جائے یا پھر غیر ضروری اخراجات کو کم کیا جائے۔
آئی ایم ایف کے مطالبات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان کو فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد اکثر مشکل رہا ہے، خصوصاً جب ان کا براہ راست اثر عام پاکستانی شہریوں اور غریبوں پر پڑتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اقتصادی بوجھ کو عوام پر ڈالنے کی بجائے امیر طبقے اور اشرافیہ سے ٹیکس وصولی کو یقینی بنایا جائے۔
اس وقت پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لئے دو بنیادی اقدامات ضروری انتہائی ہیں۔ ایک یہ کہ اخراجات میں کمی جائے اور حکومتی خرچوں میں شفافیت لائی جائے؛ دوسرا اقدام یہ ہونی چاہئیے کہ ایسی اسکیمیں شروع کی جائیں جو صنعتوں اور کاروباروں کی حوصلہ افزائی کریں بجائے اس کے کہ ان پر ٹیکسوں کا بوجھ مزید بڑھایا جائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان کے اقتصادی ماہرین کے پاس ایک جامع منصوبہ ہونا چاہئے جس سے وہ آئی ایم ایف کو مطمئن کر سکیں اور پاکستانی عوام کا اعتماد بھی بحال ہو۔ امید ہے کہ اس ہنگامی دورے کے نتائج پاکستان کے حق میں بہتر ہوں
Title Image by Gerd Altmann from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔