طاہر حنفی کا رشک افلاک

طاہر حنفی کا رشک افلاک

طاہر حنفی کا تازہ شعری مجموعہ ’’رشکِ افلاک‘‘ اردو ادب میں ایک قابل ذکر اور نیا اضافہ ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم کی راہنمائی میں قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کی طرف سے شائع ہونے والا یہ مجموعہ 75 غزلوں اور 75 اشعار پر مشتمل ہے جو شاعر کی خوبصورت سوچ، وسیع جذبات اور بہترین شاعرانہ و فلسفیانہ خیالات کی جھلک پیش کرتا ہے۔
طاہر حنفی کی شاعری میں انسانی فطرت کا گہرا ادراک اور زندگی کی پیچیدگیوں کی گہری بصیرت دکھائی دیتی ہے۔ "رشکِ افلاک” میں طاہر حنفی محبت، نقصان، روحانیت، اور انسانی حالت جیسے موضوعات کو اپنے خوبصورت شاعرانہ انداز کے ساتھ پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
آپ کی اس خوبصورت شاعری کا سب سے نمایاں اور خاص پہلو یہ ہے کہ وہ پیچیدہ اور مشکل خیالات کو بھی سادہ اور سلیس شاعری کی زبان میں بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی شاعری صداقت اور دیانت کے احساس سے جڑے ہوئے ہیں جو انہیں ہر عمر کے قارئین میں مقبول بناتے ہیں۔

طاہر حنفی کا رشک افلاک
طاہر حنفی


مثال کے طور پر شاعر اپنے کسی عزیز کے کھو جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی موجودگی کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ کی شاعری زندگی کی نزاکتوں اور نقصان کی ناگزیریت کی ایک پُرجوش یاد دہانی سے بھرپور بہترین شاعری ہے۔
اسی طرح طاہر حنفی اپنی غزل اور نظم دونوں میں زندگی کی تبدیلی، نشیب و فراز اور خوشی و غمی دونوں کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری قارئین سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بھی اپنی زندگی کے ہر لمحے کی دل و جان سے قدر کریں اور اس فانی دنیا میں اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ منفرد اور با مقصد استعمال کریں۔
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو "رشکِ افلاک” طاہر حنفی کی اردو کی بہترین شاعری پر عبور اور انسانی فطرت کے بارے میں ان کی گہری اور شاعرانہ سوچ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رشک افلاک ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جو ہر عمر اور پس منظر کے شاعروں کو پسند آئے گا اور یہ اردو ادب کی بھرپور میراث میں ایک قابل قدر اصافہ بھی تصور کیا جائے گا۔ میں شاعر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ الله کرے زور قلم اور زیادہ۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے طاہر حنفی کی نظم پیش خدمت ہے۔


*
آزادی(نظم)
*
جہانِ تیرگی میں روشنی ہے آزادی
ہیں خوش نصیب وہ، جن کو ملی ہے آزادی

خدایا ! شکر ادا جس قدر کریں کم ہے
وطن کے نام پہ ہم کو جو دی ہے آزادی

نہیں تھا اتنا بھی آسان یہ وطن لینا
جگر کا خون دیا ہے تو لی ہے آزادی

کہ ان کا نام قیامت تلک چمکتا رہے
کہ جن کے خون سے روشن ہوئی ہے آزادی

کسی نے عمر غلامی میں ساری کی ہے بسر
کسی نے جان کے بدلے چنی ہے آزادی

ہمارے قائدِ اعظم کا ہم پہ احساں ہے
نہ مل رہی تھی ہمیں،چھین لی ہے آزادی

دعا ہے ان کا رہے نام حشر تک طاہر
ہمارے نام یہ جس جس نے کی ہے آزادی

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Next Post

ڈاکٹر سارہ قریشی کا تمغہ امتیاز کدھر گیا؟

پیر مارچ 25 , 2024
اس بار بھی 23 مارچ سنہ 2024ء کے موقع پر دیئے جانے والے تمغہ امتیازات میں کوئی سائنس دان، ماہر تعلیم، انجیئر یا ڈاکٹر وغیرہ شامل نہیں
ڈاکٹر سارہ قریشی کا تمغہ امتیاز کدھر گیا؟

مزید دلچسپ تحریریں