تحریر : امان اللہ کاظم ، لیہ
سب تعریفیں اس خالق کون و مکاں کے لئے ہیں کہ جس نے تمام جہان تخلیق فرمائے۔ صانع ازل کی تخلیق کردہ ایک اک شئے نادر نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ خالق مطلق نے اس کارگاہ حیات کو ایک عظیم مقصد کے لئے تخلیق فرمایا اور وہ مقصد تھا’’اظہارِذات کی خواہش‘‘نجانے ایک لفظ کن سے پروردگار ہست و بودنے کس قدر مخلوقات کو تخلیق فرمایا مگر ’’مقصد اظہار ذات‘‘ ہنوز تشنہ تکمیل کے۔بنا برایں ذات باری تعالیٰ نے ایک ایسی مخلوق کو تخلیق فرمایاجو بقول رب کائنات’’ فی احسن تقویم‘‘کا ایک نادر نمونہ قرار پائی ۔اس مفغہء استخوان و لحم کے اجزائے ترکیبی اگرچہ پروردگار کے تخلیق کردہ کئی دیگر مخلوقات سے مماثلت ضرور رکھتے ہیں مگر تخلیق کنندہء عالم بحر وبرنے چند ایک اضافی خصوصیات سے نواز کر اسے ’’اشرف المخلوقات ‘‘کے درجہء اولیٰ پر فائز فرما دیا۔وہ اضافی خصوصیات جس کی بنا پر حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کے لقب سے ملقب کیا گیا وہ تھیں حسن لاجواب ,زبان ناطق اورعقل سلیم پس قوت گویائی اور عقل سلیم دو ایسی قوتیں ہیں جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممیز و ممتاز کرتی ہیں۔رب کائنات کی شان ربوبیت تو دیکھیے کہ اپنے مادہ تخلیق کی یکسانیت کے باوجود ہر انسان اپنے ہر دوسرے ہم جنس سے سیرت و صورت عقل وخرد شعور و آگہی , فکر و عمل ,نطق و نگاہ ,پسند و ناپسند ,حسن و قبح کے معیارات اور معاشرتی , مذہبی ,اخلاقی اور لسانی رویوں کے اعتبار سے انفرادیت کا حامل ہے۔اگرچہ شکل وصورت ,رنگ ونسل ,تہذیبی , مذہبی , معاشرتی , ثقافتی اور لسانی رویوں کے اعتبار سے خونی رشتوں میں پروئے ہوئے انسان میں تھوڑی بہت مماثلت ضرور ممکن ہے مگر ہو بہو مشابہت رکھنا ممکن نہیں ہے۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی باشعور انسان بچپن,لڑکپن اور جوانی کے شاداب ,شوخ اور جدباتی راستوں سے گزرے اور اس کے ذہن کی مومی تختی پر ان سرسبز اور شاداب راستوں کی خوشبو اور ان کی جذباتی مہک کے اثرات مرتب نہ ہوں ۔یہ شوخ اور چنچل لمحے ان لوگوں کی شخصیت کوئی اثر نہیں چھوڑتے جنہوں نے اپنے دل کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ رکھی ہو اور اپنے جذبات کے پیروں میں سنجیدگی کی بیڑیاں ڈال رکھی ہوں۔فنون لطیفہ انسانی جبلی اظہاریت کے مختلف قرینے ہیں۔فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کا جہاں تک تعلق ہے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسانی فطرت کے مطابق ہر انسان کے اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کا اسلوب اور انداز ہمیشہ منفرد اور متنوع رہا ہے۔چنانچہ جتنے بھی فنون لطیفہ ہیں وہ سب کے سب انسانی رویوں کے اظہار کے مختلف قرینے ہیں۔رقص ہو یا موسیقی ,مصوری ہو یا مجسمہ سازی یا کہ پھر شاعری ہو یا نثر نگاری یہ سب فنون(جنہیں فنون لطیفہ کہا جاتا ہے)انسانی جذبات و احساس کے اظہار کی مختلف شکلیں ہیں۔ان تمام فنون لطیفہ میں سے شاعری کو امتیاز حاصل ہے۔ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔شاعری انسانی تخلیق کا شعوری فیصلہ ہوتا ہے۔شعوری فیصلے زمینی فاصلوں کے محتاج نہیں ہوا کرتے ۔شاعری قدرت کی جانب سے ودیعت کردہ وہ تحفہ ہے جس کا مقدر بن جائے وہ شہرت اور مقبولیت کے فرق کو بخوبی سمجھ جاتا ہے۔ اسکی جنگ مستعاری ہوئی خوشیوں سے نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے تخیل کے خزانے کو اس طور استعمال کرنے کا خواہاں ہوتا ہے کہ وہ
اپنے کرب کو الفاظ کے زیور سے اس قدر آراستہ ومہراستہ کردے کہ خود اسکی تسکین ہو جائے ۔ اس عمل کو اجالنے کیلئے وہ زندگی کے شب و روز کے جذباتی, سماجی , سیاسی , ثقافتی ,معاشی اور ادبی جھمیلوں کو اپنے الفاظ میں تراش کر اس طور کرتا ہے کہ ہر لفظ صیقل ہو کر روشن ستارہ بن جاتا ہے جس کی روشنی زمین پر رہنے والوں پر اس طرح پڑتی ہے کہ ان کے تاریک گوشوں کو روشن بنا دیتی ہے۔
شاعری موصوف کی تاب سخن فہیم اذہان و قلوب کو تازگی بخش کر ترو تازہ کردیتی ہے شاعری کا فطرت زندگی , موت , محبت, سماج اور تاریخ سے ناگزیر تعلق ہے۔ شاید اسی لئے اسے تہذیب کا آئینہ سمجھا جاتا ہے۔ تہذیب کوئی یک رخہ منظر نہیں ہے بلکہ اس کی بے اندازہ اطراف ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسے شیش قول کی طرح ہوتی ہے جس میں آئینے کا ایک ہی ٹکڑا تمام اطراف کو ایک ہی رخ ایک ہی زاویے اور ایک ہی پہلو سے پیش کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔پس یہ شاعری ہی ہوتی ہے جو محبت وفا اور مروت جیسی اقدار کو اپنے آئینے میں منعکس کرکے انہیں تہذیب کا چہرہ بنا دیتی ہے۔ شاعری میں مواد,ہئیت اور وحدت
ہیئت اور آہنگ کی کا ملیت خونبت اور وحدت کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے بلکہ ایسی وحدت کو بڑی شاعری کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔ شاعر کا کام یہ ہے کہ انسانی تجربوں کے تنوع کو معنی یاب کرتا ہے۔ شاعری انسانی احساسات کی انتہائی لطیف زبان ہے۔ جذبات کی لہروں کو الفاظ میں سمونا انتہائی مہارت چاہتا ہے۔ مگر شاعر کیلئے اس کی مہارت ایک یکانکی عمل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔شاعری میں اخلاقیات کی کیا حیثیت ہے اور عہد جدید میں اس کا کیا جواز ہے۔افلاطون سے حالی تک تمام مفکرین نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اخلاقیات کے سوتے مذہب سے پھوٹتے ہیں اور مہذب معاشروں میں اخلاقی اقدار کے فروغ میں مذہب کا کردار اساسی ہوتا ہے۔ شاعر وادب میں اخلاقی شاعری کو فروغ دینے میں مرثیے کا کردار ہر عہد میں مثالی رہا ہے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ مرثیے سے منسلک تین اصناف سلام ، نوحہ اور سوز آج بھی اخلاقی عظمت۔۔کا بہترین نمونہ ہیں۔ مرثیے کو دوسری اصنافِ سخن پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس میں موضوعات پر اور رسایب اخلاقیات کا قبضہ ہوتا ہے۔ اسے واقعہ کربلا کا اثر کہیۓ یا اہل بیت علیہ السّلام عظام کی بے مثال قربانیوں کی تاثیر کہ مرثیے میں نہ تو متبدل خیالات جگہ پاتے ہیں اور نہ ہی الفاظ۔ یہی سبب ہے کہ مرثیہ نگاروں کو ایک مضبوط اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے اپنا تخلیقی ثمر پیش کرنا ہوتا ہے۔ اردو مرثیہ نگاری میں مرثیےکے مہر و ماہ انیس و دبیر کو یہ افتخار حاصل ہے کہ کسی شاعر مرثیہ گو نے ان کی طرح عروس سخن کو نہیں سنوارا ۔ اس سے بڑھ کر زندگی کی خوش بختی کیا ہوسکتی ہے کہ انسان کے شب وروز محمد ﷺ کی محبت میں گزرتے ہیں۔ نوحہ , ماتم , مجلس , شب بیداریاں,مرثیے شاعر کا ایک ایک سانس,عمر عزیز کا ایک ایک لمحہ مدینہ , نجف اور کربلا کی آب و ہوا میں رہے تو پھر اس کی سعادت کا کیا ٹھکانہ ہو۔ دنیا میں بھی سرخرو اور عاقبت میں بھی سرفرازی ذکر کرنے والوں کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ اگر ایمان خالص نہ ہو اور عقیدے پر یقین پختہ نہ ہوتو بہت دیر تک ان موسموں میں قیام ممکن نہیں ہوتا ۔ حضرت محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ سے نسبت کا صلہ دل کے اطمینان کے ساتھ ساتھ دنیا آخرت کی بھلائی بھی یقینی بناتا ہے۔مرثیہ عربی کا لفظ ہے جو کر عربی کےلفظ رثاء سے نکلا ہے۔ سے مشتق رثا کا لغوی معنی ہے میت پر رونا , دکھ کا اظہار کرنا۔ رثائی ادب کا معنی ہے مرے ہوئے لوگوں کی صفات اور ان کی موت کا نظم کی صورت میں بیان کرنا۔ مرثیہ کے اشعار میں مرنے والے سے متعلق واقعات کو کچھ اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ جس سے سننے والے پر رقت طاری ہوجائے ۔ مرثیے کو عام طور پر شہدائے کربلا کے واقعات شہادت کیلئے مختص کر دیا گیا ہے۔ اس لئے رثائی ادب کو شہدائے اہل بیت علیہ السّلام کی ثاخوانی اور عموماً گریہ زاری کیلئے مخصوص کیا جاتا ہے۔ مرثیے سے منسلک تین اصناف سلام , نوحہ اور سوز اخلاقی عظمت کا بہترین نمونہ ہیں۔ مرثیے کو دوسرے اصناف سخن پر یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ اس میں موضوعات اسالیب دونوں سطحوں پر اخلاقیات کا قبضہ ہوتا ہے۔ اسے واقعہ کربلا کا اثر کہیے یا اہل بیت علیہ السّلام عظام کی بے مثال قربا نیوں کی تاثیر سمجھئے کہ مرثیے میں یا سوز وسلام میں نہ تو مبتدل خیا لات جگہ پاتے ہیں اور نہ ہی الفاظ۔ یہی سبب ہے کہ رثائی ادب نگاروں کو ایک مضبط اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے اپنا تخلیقی ثمر پیش کرنا ہوتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود وہ ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھ کر قارئین کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ اردو مرثیے کے مہرو ماہ انیس و دبیر کو یہ افتخار حاصل ہے کہ کسی نے ان کی طرح عروس سخن کو نہیں سنوارا۔ ان دونوں مرثیہ نگاروں نے محض اپنی ضیاعانہ کاوشوں کے جوہر ہی نہیں دکھائے بلکہ وہ اردو مرثیے کو موضوعات و اسالیب کی ایک وقیع شاہراہ بھی عطا کر گئے ہیں جس پر بعد میں آنے والے مرثیہ نگاروں نے مرصتع اور دلکش محلات تعمیر کیے ہیں۔ وتطریات مرثیے , نوحے اور سوزوسلام کی صنف کو اپنے افکار کی شاندار اور پر تحمل روایت سے مالامال کرنے والوں میں ایک معتبر نام مقبول ذکی مقبول کا بھی ہے۔ مقبول ذکی مقبول نے اپنی دو سو صفحات پر مشتمل کتاب ’’ منتہائے فکر‘‘ کے نام سے اپنے قارئین کو عطا کی ہے جس میں سلام و سوز کے نادر اشعار موجود ہیں۔ لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی دانست میں اپنے فکر کی انتہا کردی ہے۔ان کے چند چیدہ اشعار ملاخط فرما ئیں ۔
(۱) چمک رہی ہے یوں نور حق سے یہ آپؑ کی جو جبین مولا
ہیں عرشِ اعظم کے آپؑ باسی ہوئے ہیں کربل مکین مولا
امیر قاسم ، عباس و اکبر, صغیر اصغر شہید آخر
لہو سے مقبول تر ہوئی ہے یہ کربلا کی زمین مولا
(۲) تاریخ میں ہے لاشہ پامال کردیا تھا
بے رحم ظالموں نے مرحوم کر بلا کا
شبیرؑکی شہادت تعلیم دے گئی ہے
ہر شخص ہوگیا ہے محکوم کربلا کا
(۳) کس طرح آئے تھے آقاؑ ساتھ بچے بیبیاں
نقش ہر مومن کے دل پر وہ قیام کربلا
گھر دیا راہ خدا اُف تک نہ کی شبیرؑ نے
ہیں امام دو سرا اور ہیں امام کربلا
دس محرم سے ہے جاری ایک چشمہ عِلم کا
سب کے دل سیراب کرتا ہے کلام کربلا
کربلا کے حوالے سے مرثیے میں پائی جانے والی روایت سے رثائی ادب کو ایک منفرد پہچان نصیب ہوئی ہے۔ مقبول ذکی مقبول کو بھی رثائی ادب کے حوالے سے جو پہچان ملی ہے یہ انہی کا خاصہ ہے۔ انہیں سوز و سلام اور نوحہ و مرثیہ کو پر سوز اشعار میں ڈھالنے کا فن آتا ہے۔ منتہائے فکر کے صفحات پر بکھرے ہوئے اشعار اہل بیت علیہ السّلام کی مظلیومیت اور بے کسی کے ساتھ ساتھ حسینی قافلے کی ہمت کے کردار کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ قافلہ شبیری میں شامل اصحاب نے دین حق کی سربلندی اور ترویج کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ منتہائے فکر کے اشعار اس پر صاد ہیں۔
ؔ؎ یہاں سب کچھ لٹا کے بھی کیا ہے شکر خالق کا
تمہیں ہو صبر کے حامل حسینؑ ابن علیؑ حاجب
کیا سجدہ جو خالق کا صدا آئی یہ ہاتف سے
بہادر بھی ہو اور عادل حسینؑ ابن علیؑ حاجب
علی اصغرؑ نے پانی مانگ کر حجت مٹا ڈالی
چلایا تیر ہے حرمل حسینؑ ابن علیؑ حاجب
ؔ؎ اانسانوں کی سوچوں سے بھی بڑھ کر بالا آپؑ
قرآں جس کی شان میں بولے وہ ہیں مولاؑ آپ
آپ تو ہیں بے مثل جہاں میں آپؑ کی کون مثال؟
کربل شاہد ہے کہ سب سے ارفع , اعلیٰ آپؑ
؎ آپؑ کا شجرہ محمدؐ سے ہے ابراہیمؑ تک
مصطفائی حسب و نسب , اور آپؑ کی اعلیٰ ہے ذات
گھونٹ پانی کا تھا مانگا بے زباں معصومؑ نے
تیر حرمل نے چلایا رو پڑی کل کائنات
زد میں تھے لاکھوں کی دین مصطفیٰ ﷺ کے پاسباں
کربلا میں سب بہتر , تھے وہاں قائم ثبات
ؔ؎ سمجھے کون حسینؑ کی عظمت
زہراؑ کے دل چین کی عظمت
رتبہ پاک امام کا اعلیٰ
مولائے ثقلین کی عظمت
مقبول ذکی مقبول کی شاعری میں اہل بیت علیہ السّلام کی دکھ بھری کیفیات کا اظہار کچھ اس انداز میں ہوتا ہے کہ پڑھنے والادل ۔۔۔ کر رہ جاتا ہے۔ ان کے اشعار میں آل رسولﷺ کی عظمت اور ان کی بے بسی کے ساتھ ساتھ ان کے کردار کی عظمت اور حق کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کی ہمت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔آل رسول ﷺ نے کربلا کی بے آب وگیا سرزمین پر ایک تاریخ رقم کی ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے دین حق کی سربلندی کی خاطر اپنےمعصوم بچوں تک کی قربانی دیکر ایک مثال قائم کردی ہے۔
ؔؔؔ؎ فرمان مصطفیٰﷺ کا تکمیل کربلا ہے
شبیرؑ کا لہو ہے قندیل کربلا ہے
؎ خدا کی راہ میں سارا گھر کیا ہے پیش مولا نے
اٹھا کر جھولے سے اصغرؑ کیا ہے پیش مولا نے
؎ عجیب عالم ہے تشنگی کا بدن بھی نیزوں سے پارہ پارہ
اٹھائے شہ ؑ نے جوان لاشے لہو افق سے چھلک رہا ہے
؎ مصائب میں یہ کہتے ہیں مرے اللہ تو راضی ہو
فقط قرآن بر حق کی اطاعت میں یہ دم نکلے
؎ ہے رکھ لیا بھرم پغمبروں کا اس جہان میں
جو دین حق بچا گیا غیور وہ حسینؑ ہے
جو کر دیا ہے پست پھر سے بت شکن کے لعل نے
دیا ہے توڑ کفر کا غرور وہ حسینؑ ہے
مرثیہ کو صنعت کے بجائے موضوع کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ” منتہائے فکر” کی شاعری میں واقعہ کربلا کو کئی اصناف میں پیش کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔
مقبول ذکی مقبول کی شاعری عقیدت احترام اور خلوص سے بھر پور ہےانہیں قلم اٹھانے سے پہلے موضوع کی عظمت وحرمت کا بخوبی احساس ہے
۔ان کے مجموعوں کے ناموں (سجدہ ، منتہاۓ فکر)کا انتخاب ہی ان کی سوچ اور فکر کی بلندی اور پاکیزگی کاپتہ دیتا ہے۔ذکی کا ہر شعر واقعی منظور و مقبول نظر آتا ہے۔
دعا ہے کہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
امان اللہ کاظم
لیہ
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔