ممتاز صوفی شخصیت جناب واصف علی واصف کا قول ہے ’’ اگر غریب فاقے سے مر رہا ہو تو امیر یقینا بدہضمی سے مرے گا۔‘‘ معاشرے کے کمزور اور نادار طبقات کی فلاح وبہبود کا خیال رکھنا نا صرف حکومت کی ذمہ داری ہے بلکہ اس میں صاحبِ ثروت بھی برابر کے شریک ہیں۔ دنیا کا اصل المیہ خوراک کی کمی نہیں بلکہ اس کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، دنیا میں جتنی خوراک پیدا ہوتی ہے وہ دس ارب انسانوں کے لئے کافی ہے جبکہ دنیا کی آبادی سواسات ارب ہے مگر اس کے باوجود کروڑوں لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ آج دنیا کے99%وسائل پر ایک فیصد سے کم افراد قابض ہیں ۔ کسی ستم ظریف نے درست ہی کہا ہے کہ ’’آج ایک امیر آدمی کے شیمپو میں اتنے فروٹ ہیں جتنے غریب کی پلیٹ میں نہیں۔‘‘ ہم جس دنیا میں بستے ہیں اس میں 85کروڑ لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ بھوکے ایشیا میں رہتے ہیں دنیا میں ساڑھے چھ کروڑ بچے روزانہ بھوکے پیٹ سکول جاتے ہیں ان میں دوکروڑ بچے افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک ارب تیس کروڑ ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے یہ کل خوراک کا ایک تہائی حصہ ہے ہم اس خوراک کو رقم میں تبدیل کریں تو ترقی یافتہ ممالک کے عوام سالانہ 680ارب ڈالر اور ترقی پذیر ملکوں کے لوگ310ارب ڈالر کی خوراک ضائع کردیتے ہیں۔ یہ ملک اگر اپنا فالتو کھانا کوڑے کے ڈھیروں پر پھینکے کے بجائے بھوک سے بلبلاتے اور مرتے لوگوں تک پہنچا دیں تو دنیا کی شکل بدل جائے اور انسان انسان کے قریب آجائے۔ جب ہم لوگ اپنی فالتو خوراک ڈسٹ بنوں میں پھینک دیں گے تو ہمارے فالتو کھانے سے ہمارے گٹر بند ہوجائیں گے اور ہمیں اپنے ہمسائے میں بھوک کا بھنگڑا ہی ملے گا۔
مفلسی حسنِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
میرے نزدیک ارکانِ دین ظاہری عبادات کا نام نہیں بلکہ شعائر اسلام میں کئی فلسفے مضمر ہیں ایک ایک نقطے میں اتنی گہرائیاں پنہاں ہیں کہ مکمل آگاہی کے لئے ایک عرصہ درکار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ ‘‘ روزہ شرعی نقطہ نظر سے جہاں تزکیہ نفس ، تقویٰ اور قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے وہاں یہ روحانی و بدنی امراض کا علاج بھی ہے ۔ روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اہلِ ثروت اس فریضے کی ادائیگی میں جب سحری سے افطاری تک بھوکے اور پیاسے رہیں گے تو انہیں عملی طور پر بھوک اور پیاس کی شدت کا اندازہ ہو گا۔ اگر ہمیں روزہ رکھنے کے باوجود ایک مفلس کی مفلسی کا احساس نہیں ہوتا تو یقین جانئے ہماری بصیرت ہمیں دھوکا دے رہی ہے، ماہِ صیام میں اگر ہم نے فاقہ کشوں کے کرب اور پیاسوں کے الم کا اندازہ نہیں لگایا تو واللہ ہمارے حصے میں بے معنی بھول پیاس کے سوا کچھ نہیں آیا۔ اگر ہم نے افطاری کے وقت اپنے دستر خوانوں پر انواع و اقسام کے فروٹ، شربت اور کھانے سجا رکھے ہیں لیکن ہمارے ہمسائے کے چولہے میں آگ تک نہیں جلی اس کے معصوم بچے بھوک سے سسک رہے ہیں تو یاد رکھو ہمارے ان روزوں کی خالق کائنات کو کوئی ضرورت نہیں۔
جیسے پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں ویسے ہی معاشرے میں ایسے صاحبِ دل حضرات موجود ہیں جو اس ماہ مبارک میں اتنا صدقہ وخیرات کرتے ہیں کہ بہت سے بجھے ہوئے چولہے جل اٹھتے ہیں اور بہت سے سفید پوش گھرانے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی اذیت سے بھی بچ جاتے ہیں۔ ان خوش بخت افراد کا ذکر کرتے ہوئے دلی خوشی ہو رہی ہے گو کہ اگر یہ بات ان کے علم میں آجاتی تو مجھے کبھی اجازت نہ دیتے کیونکہ ان کے بائیں ہاتھ کو پتہ نہیں چلتا کہ دایاں ہاتھ کس کی مدد کر رہا ہے۔ ان عبقری صفت خاص لوگوں میں اول الذکر میرے مرشد پیر ثانی سرکار ہیں جن کی سخاوت کا عینی شاہد ہوں اور عمرہ کی سعادت کے دوران ’’لنگر‘‘ کی تقسیم کے مناظر اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کیے ہیں جہاں وہ اپنے ملکی زائرین کے ساتھ ساتھ دنیا بھرکے مومنین کو اپنے ذمہ لے لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے آستانے کے لنگر کی دھومیں ہر سو سنائی دیتی ہیں۔ اگر دنیاداروں کی بات کروں تو الٰہی گروپ آف انڈسٹریز کے صنعتکار محفوظ الٰہی کا نامِ نامی نمایاں ہے موصوف ناصرف اپنے صنعتی اداروں میں ملازمین اور ان کے خاندانوں کی فلاح وبہبود کا خیال رکھتے ہیں بلکہ رمضان المبارک میں دل کھول کر مستحقین کی مدد کرتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ حسن ابدال میں عام شہریوں اور ضرورت مندوں کی امداد کرنے میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ انہی کی فیکٹری کے ڈائریکٹرچوہدری مسعود اختر بھی ان کے ہمقدم اور بڑھ چڑھ کر فلاحی خدمات میں پیش پیش رہتے ہیں جبکہ ان کی معاونت میں مزدور لیڈر منیر حسین بٹ بھی مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح حطار انڈسٹریل اسٹیٹ میں سینکڑوں کارخانے ہیں ان میں مجاہد گھی اینڈ آئل انڈسٹریز کے جنرل منیجر چوہدری محمد یوسف کا شمار بھی ضرورت مندوں کی مدد کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ حسن ابدال میں سیٹھی فلور ملز کے ڈائریکٹر محمد رضا اور شیخ معمور اپنے ملازمین کے ساتھ ساتھ مستحق افراد کی امداد میں کبھی پیچھے نہیں رہے اور حقداروں کی دل کھول کر ایسے مدد کرتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ فلور ملز انڈسٹری کے ایک بڑے صنعتکار شاہ عالم فلور ملز کے مالک عبدالصمد سیٹھی بھی ضرورت مندو بے آسروں کی دستگیری میں پیش پیش نظر آتے ہیں اسی لئے ان کے ملازمین بھی ان کے گن گاتے ہیں۔ انجمن باباولی قندھاریؒ کے خادم اعلیٰ اسد اقبال ترک بھی بھوکوں کو کھانا کھلا کر دلی تسکین محسوس کرتے ہیں، وہ ہر سال رمضان المبارک میں حسن ابدال لاری اڈے پر آصف علی اعوان کے ساتھ مل کر مسافروں کے لئے افطاری اور طعام کا انتظام کرتے ہیں۔ ماہر تعلیم و سماجی شخصیت فاروق احمد ناصرف اپنے سٹاف کی ویلفیئر پر توجہ دیتے ہیں بلکہ رمضان المبارک میں اپنے دفتر کے پاس مسافروں کی افطاری کا اہتمام کئی سالوں سے کر رہے ہیں۔ اسلام پور گائوں سے تعلق رکھنے والے محکمہ تعلیم کی ممتاز شخصیت حاجی محمد ریاض اعوان بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو علمائے کرام کے ساتھ ساتھ خاص طور پر اپنے دوست احباب کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہونے دیتے۔
عموماٌ افسر شاہی کو عوام الناس سے فاصلے پر سمجھا جاتا ہے لیکن اسسٹنٹ کمشنر عدنان انجم راجہ ایک درد دل رکھنے والے آفیسر واقع ہوئے ہیں وہ اپنے ذاتی کاروبار سے منسلک ملازمین کی تہواروں پر خصوصی مدد بھی کرتے ہیں اور اپنے سفید پوش دوستوں اور تعلق داروں کو بھی اس نیک کام میں شاملِ حال رکھتے ہیں۔ رمضان شریف میں ان کے والد گرامی بابو جی اپنے بیٹے سے دو قدم آگے بڑھ کر غرباء و مساکین پر اپنا مال خرچ کرنے میں سبقت لے جاتے ہیں۔ان مرد حضرات کے ساتھ ایک خوش بخت خاتون بیگم نسیم سکندر کے تذکرے کے بغیر کالم ادھورا رہے گا کہ وہ شدید بیماری کے باوجود جب بھی ذرا ہوش میں آتی ہیں تو اپنے بیٹے ذولفقار حیات سے پوچھتی ہیں کہ مستحق خواتین کو ماہانہ وظیفہ جا رہا ہے یا نہیں۔ اللہ کے ساتھ ایسی منافع بخش تجارت کرنے والوں کے ہوتے ہوئے غریبوں کے چولہے کبھی نہیں بجھیں گے بلکہ ہمیشہ روشن رہیں گے۔ مذکورہ ادارے اور شخصیات کی خدمات بندہ فقیر کے ذاتی مشاہدے کا حصہ ہیں اس سطور کا مقصد ان سے کسی دنیاوی منفعت کے بجائے ان کے نیک کاموں کی تشہیر کر کے دوسروں کو بھی اس جانب راغب کرنا ہے ورنہ ان کا معاملہ اللہ کی خوشنودی و رضا کے سوا دنیاوی نمائش ہرگز نہیں۔
شاہد اعوان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔