آبی
اٹک کی وہ زمین جو دریائے ہرو میں سلطان پور سے نیچے کٹ لگا کر اور وہ زمین جو چشموں اور دوسرے ندی نالوں میں کٹاؤ ڈال کر سیراب کی جاتی ہے آبی کہلاتی ہے۔
سب سے زیادہ مفید زمین وہ ہے جو واہ اور حسن ابدال کے چشموں سے سیراب ہوتی ہے، یہ بہت زیادہ اچھی ہے۔باقی کہیں کہیں ٹکڑوں میں بھی ایسی زمینیں ملتی ہیں لیکن زیادہ تر دیہات میں ایک ہی قسم کی زمین ہے۔
پنڈی گھیب میں آبی سے مراد ہر جگہ چاہی زمین کو ہی شامل کیا جاتا ہے اور اس طرح علاقہ جندال میں بھی یہ بات اہم ہے اور وہاں بھی 200 ایکڑ سے کم ہے۔
نہری۔
آبی اور نہری میں فرق آبپاشی کی قسم پر ہوتا ہے جو کہ ہرو دریا سے کی جاتی ہے۔
سلطان پور سے اوپر جہاں ندیاں زمین کے اوپر پھیل کر بہتی ہیں پنج کٹھ کے علاقے میں پانی کی فراہمی سال بھر نہیں رہتی۔
ہرو اپنے بہاؤ کے اس علاقے میں سال کے زیادہ حصہ میں خشک رہتی ہے۔
اور آب پاشی ایک سیلابی نہر سے مختلف نہیں ہوتی۔
ہر بارش کے ساتھ تازہ پانی دریا میں آتا ہے اور اسے روک کر زمین کو سیراب کیا جاتا ہے۔باقی آبپاشی سارا سال ہوتی رہتی ہے، وہ چشموں سے ہو یا ندی نالوں سے جو چشموں کے پانی کے بہاؤ سے وجود میں آتے ہیں یا پھر سلطان پور گاؤں سے نیچے جہاں ہرو سال بھر بہتی ہے۔
تاہم یہاں دریا کے کنارے پر ہی تھوڑا علاقہ سیراب ہوتا ہے اور پانی بھی حقیقتاً ہرو کا پانی نہیں ہوتا بلکہ یہ ان چشموں سے آتا ہے جو ہرو کے دامن میں تھوڑی اونچائی سے آ کر ہرو میں شامل ہوتا ہے۔
لہزا نہری کی اصطلاح صرف اس زمین پر پنج کٹھ میں یا ایک اور دو دیہات جو سلطان پور سے نیچے آتے ہیں میں شامل ہوتی ہے باقی ہر قسم کی آبپاشی ابی کہلاتی ہے۔
حسن ابدال اور واہ کے دیہات میں آبی زمینوں سے بعض اوقات دو کے بجائے تین فصلیں لی جاتی ہیں۔
کئی ایک دیہات کی اعلیٰ نہری زمینوں سے جب کے اچھی کھاد ڈالی جاتی ہے۔
اور جو آبپاشی کے راستوں نزدیک ہوں سے ششماہیوں میں چھ فصلیں بھی لی جا سکتی ہیں۔
ایسی زمین "دو فصلی نہری کہلاتی ہے”.
1907 میں کل رقبہ 1٫702 ایکڑ تھا جو 1925 میں بڑھ کر 1٫788 ایکڑ ہو گیا۔
سلطان پور کی نہری زمینیں مختلف زرخیزی کی اہمیت کی حامل ہیں۔
نہری زمینیں صرف اٹک تحصیل میں ہیں جو تحصیل کے اندر نلہ سرکل کے شمال مشرقی کونے میں ہیں، سارا پانی تقریباً ہرو سے حاصل ہوتا ہے۔
نہروں کے سرے زیادہ تر ہزارہ کی ہری پور تحصیل میں ہیں اور اٹک کے مالکان کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ خانپور کے گکھڑ خاندان سے پانی کی فراہمی کی خاطر اچھے تعلقات استوار رکھیں۔سیلابی زمینیں اٹک اور فتح جنگ تحصیلوں میں اہم ہیں۔(پنڈی گھیب میں 400 ایکڑ سے کم ہیں)۔
فتح جنگ اور پنڈی گھیب میں گندم بڑی فصل ہے پورے ضلع میں مزروعہ رقبہ کا 74٪ رقبہ قابل کاشت ہے۔اٹک کی لپاڑہ زمین کو جب بھی وسائل اجازت دیں تو چاہی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، ان پر زراعت ہمیشہ احتیاط سے کی جاتی ہے، اچھی کھاد ڈالی جاتی ہے اور زیادہ تر دوہری فصل نہیں لی جاتی۔پنڈی گھیب میں مٹی بہت حساس قسم کی ہے۔
سخت گرمی یا دیر سے بارش ہونے پر لپاڑہ کی فصلیں سب سے پہلے بکھر جاتی ہیں۔
فتح جنگ میں احتیاط سے اس زمیں پر حل چلایا جاتا ہے یہاں یہ زمین بہت قیمتی ہے۔چھچھ میں لس سے مراد وہ زمینیں ہیں جو گندھ گڑ کے پہاڑوں سے آنے والے پانی سے سیراب ہوتی ہیں قیمتی تہہ نشین مادوں جو کہ زمین کو بار بار زرخیز کرتے رہتے ہیں اس کے علاؤہ زمین نیچے ہونے کی وجہ سے ہر سال سیلابی پانی سے بھی سیراب ہوتی ہے۔ اس طرح ان زمینوں کی نسبت جن پر سیلابی پانی نہیں پہنچتا یہ زمینیں زیادہ تر نمی کو اپنے اندر سہارتی ہیں۔
جب کے دوسری زمین خشک ہو جاتی ہیں لہذا وہ دیہات جن کی زمینیں "لس” ہیں بہت محفوظ ہیں اور قحط سالی کے دنوں میں بھی کم متاثر ہوتے ہیں جب کہ عام سالوں میں زمین کی پیداوار "میرا” سے کافی ہوتی ہے (Mr Tailor کی رپورٹ کے مطابق پیراگراف 4) کے مطابق آخری بندوبست کے دوران "لس” چھچھ کے آبی دیہات میں ریکارڈ کی گئی اور اس وقت کی درجہ بندی اب تک موجود ہے۔
باقی ہر جگہ "لس” کا مطلب ایسی زمینیں ہیں جن کے گرد بند باندھے جاتے ہیں۔ عموماً یہ گہری ندیوں کے ساتھ ساتھ ہوتی ہیں۔
جہاں ندیوں کا پانی اوپر چڑھتا ہے اور اونچائی والی زمینوں سے رسنے والے پانی یعنی نمی کی وجہ سے بھی زیادہ دیر تک نمی کو سہار سکتی ہیں۔ زیادہ بارشوں کے دوران کافی ساری دریائی مٹی ان زمینوں کے اوپر ا جاتی ہیں جو انھیں مزید زرخیز بناتی ہیں۔
البتہ پانی کو روکنے کے لیئے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔
جب ایسا کٹاؤ ہو جائے تو زمین بے کار ہو جاتی ہے کہ پانی زمین کی زرخیز مٹی کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے اور اس میں نمی بھی نہیں رہتی۔ جب تک بند موجود رہتے ہیں تو یہ زمین ایک اچھے "میرا” سے بھی بہتر ہوتی ہے۔
لیکن چھچھ کے مرکز کی "لس” کے برابر نہیں ہو سکتی۔
بند باندھنے سے اور ہمیشہ ان کی مرمت کرتے رہنے سے جو اخراجات اور محنت ہوتی ہے اس کی وجہ سے عام طور پر اس زمین کا تخمینہ (مالیہ) ایک اچھی "میرا” زمین کے نرخ پر کیا جاتا ہے۔ خصوصیات کے لحاظ سے میرا کی کئی اقسام ہیں۔ ایسے جہاں یہ ریتلا اور نرم ہے وہاں صرف ربیع کی فصل اگائی جاتی ہے جہاں یہ اونچی سطح پر ہو تو مٹی زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔یہ کچی زمین خریف کی فصلوں کے لیئے چھوڑ دی جاتی ہے تاہم بعض اوقات یہ ربیع کے لیئے بھی استعمال ہو جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کسان اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ربیع کی فصل زیادہ قیمتی اور منافع بخش ہوتی ہے۔
بارانی زمینوں میں زراعت کے دو ہی طریقے استعمال ہوتے ہیں ایک "دو فصلی/دو سالہ” طریقہ ہے جس میں عموماً ربیع کی فصلیں گندم اور چنا کے بعد خریف کی فصل باجرہ اور جوار بوئی جاتی ہے یہ زمینیں اس طرح دو فصلوں کے لیئے چھوڑ دی جاتی ہیں اور اچھے طریقے سے باقائدگی کے ساتھ ہل چلایا جاتا ہے۔
دوسرا نظام جو کہ زیادہ عام ہے وہ یہ ہے کہ ربیع اور خریف کے لیئے الگ الگ زمینیں چھوڑی جاتی ہیں، ہلکی زمین ربیع کے لیئے چھوڑی جاتی ہے اور سخت مضبوط خریف کے لیئے چھوڑی جاتی ہے۔
ربیع کے لیئے چھوڑی جانے والی زمین پر ایک
ربیع کے لیئے چھوڑی جانے والی زمین پر ایک یا زیادہ سالوں گندم بوئی جاتی ہے اور اس کے بعد چنا کاشت کیا جاتا ہے۔
تارا میرا اکثر خریف کی فصل کے بعد بو دیا جاتا ہے جب خریف کی فصل ناکام ہو تو وہ زمین جو خریف کی فصل کے لیئے چھوڑی جاتی ہے اس پر باجرہ بویا جاتا ہے۔
ہلکی ربیع والی زمین پر عموماً گندم کے لیئے دو دفعہ ہل چلایا جاتا ہے اور چنے کی فصل کے لیئے ایک ہی دفعہ ہل چلاتے ہیں۔
مضبوط اور پکی زمینیں زیادہ توجہ چاہتی ہیں۔
اوسطاً 100 ایکڑ میرا زمین پر 61 ایکڑ پر فصل تیار ہوتی ہے اور بیجے ہوئے رقبہ پر خرابی کی اوسط 25 فی صد ہے۔
100 ایکڑ مزروعہ راکڑ زمین پر سالانہ اوسطاً 52 ایکڑ پر فصل تیار ہوتی ہے اور بیجے ہوئے رقبہ پر خرابی کی اوسط 32 فی صد ہے۔
ایسی زمینوں پر صرف بارشوں والے سال ہی بیجائی ہوتی ہے اور اس زمین کی فصلوں سے عموماً تارا میرا یا بعض اوقات پھلی دار اجناس کے ساتھ کبھی کبھار گندم بھی بوئی جاتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔