ریل کا پہیہ

ریل کا پہیہ

پہیہ کا نام یہ اصطلاح سنتے ہی گول دائری شکل میں گھومنے والا جسم ہمارے ذہن میں آتا ہے ۔ پہیہ کو حرکت دینے کیلئے متحرک کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے حرکت دے اور یہ گھومتا ہوا بیرونی قوت کے دباؤ سے مخالف سمت چل پڑتا ہے اور کھچاؤ سے متحرک کی سمت چلتا ہے ۔ اب سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر آگے بڑھنے کیلئے پہیہ کیطرح دائری شکل میں ہی گھومنا ہوتا ہمارے پاؤں تو چلتے ہوئے سیدھے پڑتے ہیں اور ہم پھر بھی انہیں حرکت دے کر آگے پیچھے یا دائیں بائیں جا سکتے ہیں تو پہیہ کا فلسفہ ہمارے آگے بڑھنے یا چلنے پر لاگو کیوں نہیں ہوتا ! لیکن جب تحقیق کریں تو ہمارے پاؤں کشش ثقل کیوجہ سے ایک ایک کرکے جب اٹھتے ہیں تو گھٹنے مڑنے پر دائرے کہ شکل میں گھومتے ہوئے بڑھتے ہیں جو ہمیں محسوس تو نہیں ہوتے لیکن مشاہدات اور تحقیق سے یہ سرکیولر موشن دائری شکل میں گھومتے ہیں اور یہ ثابت ہے ۔ سرکیولر موشن یعنی دائری شکل میں اپنے مدار میں گھومنا جیسے یہ دن اور رات کا چکر نظام شمسی زمین اپنے مدار میں گھومتے ہوے اس کاہنات میں سورج کے گرد چکر کاٹتی ہے اور چاند اپنے مدار میں گھومتا ہوا زمین کے گرد 24 گھنٹے میں چکر پورا کرتا ہے یہ سبق ہم نے بچپن میں پڑھا تھا اور سب اس بارے جانتے بھی ہیں ۔ غرضیکہ ہمارے جسم میں دوڑتا ہوا خون دل سے نکل کر اوپر دماغ اور پھر نیچے پاؤں تک جا کر پھر دل کیطرف لوٹتا ہے مسلسل حرکت میں ہے اور گھومتا رہتا ہے ہمارے روز مرہ کے ایام ایک پلاننگ سے ہی فعال طریقے سے انجام پاتے ہیں ہر شے کا اپنا ساہیکل ہے اپنا دورانیہ ہے جو اس نے پورا کرنا ہے ۔

ریل کا پہیہ
Image by PIRO from Pixabay

بچپن سے جوانی اور بڑھاپا جسمیں انسان پھر سے عادات میں بچہ بن جاتا ہے ایک مدار ہی تو ہے زندگی کا ۔ آج آپ کوئی بیج بوئیں تو کل آپ کو پھول یا پھل نہیں ملے گا بلکہ وہ بیج پہلے اپنی جگہ بنائے گا موافق وقت و حالات کا انتظار کرے گا نمی حاصل کرے گا پھر گل سڑ جانے کے مراحل کے بعد اس میں سے نیا پودہ پھوٹے گا جو بڑا ہو کر پھول یا پھل دے گا تو اس کا بھی ایک دورانیہ تہ ہے جیسے ایک بد شکل کیڑا رینگتا ہوا آتا ہے اور تتلی بن کر اڑ جاتا ہے ۔ اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ آپ کو میری باتیں یہ مدار یہ سائیکل یہ گھومنے والا پہیہ کچھ کچھ سمجھ میں آرہا ہو گا جو کہ میرے مضمون کا عنوان بھی ہے تو اس کا ہماری زندگیوں سے کیا واسطہ ہمارے روزمرہ کے معاملات سے کیا غرض تو عرض یہ ہے جنابِ من کے ہم نے اکثر سنا ہے کہ زندگی کے سفر میں ہمارے ازدواجی ہمسفر ہوں یا جو اس بندھن سے مبرع ہیں وہ اس طرح سمجھیں کہ اگر دفتر یا پراجیکٹ میں ان کا کوئی ساتھی ہوں ان میں ان کے ساتھی کیساتھ زہنی ہم آہنگی بہت ضروری ہے تاکہ یہ سلسلہ ایک وسیلہ کی شکل میں اپنی منزل کیطرف خیریت سے پہنچے اب اگر اس وسیلہ کا ایک پہیہ موٹر کار کا ہو اور ایک ٹریکٹر کا تو توازن قائم نہیں ہو گا یہ وسیلہ ہچکولے کھاتا آپ کو گرا بھی سکتا ہے خود بھی پلٹ سکتا ہے اور جناب اوندھے منہ پڑے ہونگے ۔ اب اگر ایک پہیہ بڑا ہو اور ایک چھوٹا تو پہلے تو سواری کا چلنا یا آگے بڑھنا مشکل ہوگا دوسرا یہ کہ جو پہیہ چھوٹا ہوگا سارا زور اس پر آئے گا اور آپ کے نا چاہتے ہوئے بھی سواری چھوٹے پہیے کیطرف بڑھتے ہوئے مدار میں گھومے گی اور جہاں سے سفر شروع کیا ہو گا وہیں گول دائرے کی شکل میں واپس آ جائے گی پنجابی کی ایک مشہور ضرب المثال ہے ” جتھے دی کھوتی ، اوتھے آن کھلوتی ” اس کا اردو ترجمہ تو لکھ دوں لیکن جو مٹھاس اس مثال میں ہے وہ نا رئے گی اس لئیے نا سمجھنے والے قارئین سے پیشگی معزرت ( جہاں سے سفر شروع کیا ہو وہیں پہنچ جانا انگریزی میں کہیں تو ‘ بیک ٹو سکویر ون ‘ ) ۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں پہیوں کو ملکر کام کرنا ہے اگر آگے بڑھنا ہے دونوں ساتھیوں کو ذہنی ہم آہنگی کیساتھ یہ سفر تہ کرنا ہے ایک جوڑا بن کر ، جوڑےکا زکر ہواتو جوڑوں کا درد یاد آگیا اور ساتھ ہی آپکو بتاتا چلوں کہ جو احباب فنون لطیفہ سے شغف رکھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ طبلے کی بھی جوڑی ہوتی جنہیں زیر و بم کہتے ہیں بایاں طبلہ زیر کہلاتا ہے اور دایاں طبلہ بم کہلاتا ہے ان کی آپسی ٹیوننگ کے بغیر سُر نہیں لگتے ان کے اتار چڑھاؤ کا مرکب ہی دُھن بناتا ہے تو جب طبلے کا سُر میں ہونا ضروری ہے توہم تو پھر انسان ہیں سُر میں رہا کریں جہاں بھی رہیں جو کام بھی کریں تاکہ یہ زندگی کا سفر خوشگواری یادوں بھرا رہے ۔ زندگی اور ہے کیا خوبصورت یادوں کا مجموعہ ہی تو ہے اس لئیے سب کی عزت کریں ، ماں باپ کے علاؤہ کسی کو کس پرفوقیت نا دیں ، کسی کا کسی دوسرے کیساتھ موازنہ ناکریں کسی کی حق تلفی نا کریں اور جہاں ظلم یا برائی دیکھیں وہاں قدرے ممکن مظلوم کا ساتھ دیں یا اس پر آواز بلند کریں ۔

موضوع اس سے زیادہ طوالت اختیار نا کرے اس لئیے یہ سفر سمیٹتے ہوئے واپس چلتے ہیں موضوع کے عنوان کیطرف ‘ ریل کا پہیہ ‘ تو یہی نام کیوں وہ اسلیئے کہ ریل کا پہیہ اپنی ساخت میں دوسرے پہیوں کی بنسبت صرف گول نہیں بلکہ صعودی اور نزولی شکل کے امتزاج سے تھوڑا سا بیضوی شکل جیسا ہوتا ہے جیسے لاٹو ہوتا ہے اس کو اگر لٹا دیں تو کچھ اس طرح کا ہوتا ہے ریل کا پہیہ( ہموار نہیں ہوتا باہر کیطرف والا حصہ مڑا ہوا ہوتا ہے – تصویر ملاحظہ کیجیۓ ) تاکہ جہاں موڑ آئے تو برق رفتاری کے سبب ریل گاڑی پٹڑی سے اتر نا جائے بلکہ اس کی مخصوص ساخت کی بدولت جسطرف مڑنا ہو اس طرف چھوٹے حصہ پر زور آ جاتا ہے اور دوسری طرف بڑے حصے پر دباؤ رہے جس سے دباؤ یا کثافت میں توازن رہے اسی طرح یہ زندگی کا سفر بھی ہمیشہ ہموار راستوں سے نہیں گزرتا اس میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں سیدھا چلتے ہوئے اچانک موڑ آ جاتے ہیں سر سبز لہلہاتے کھیتوں سے ہوتے ہوے اچانک گرم صحرا یا پہاڑوں کی اندھیری سرنگیں آ جاتی ہیں تو ہمیں اسوقت حکمت سے کام لیتے ہوئے اپنے اندر دباؤ محسوس کرتے ہوے ریل کے پہیہ کے چھوٹے حصے کیطرح توازن برقرار رکھنا چاہیے تاکہ اپنی منزل مقصود تک بخیر و عافیت پہنچیں وقت اور حالات کیساتھ ڈھلنا اور چلنا سیکھیں اسوقت موقع کی مناسبت سے جھک جانے میں ہی عافیت ہوتی ہے اور وہ جو نہیں جھکتے وقت نے ثابت کیا ہے کہ شجر جو جھکتے نہیں نا تو ان پر پھل لگتا ہےنا وہ آندھیوں میں ٹھہر سکتے ہیں تیز ہوائیں انہیں اکھاڑ پھینکتی ہیں اور اس کے بر عکس چھوٹے چھوٹے کمزور بوٹے جو جھک گئے تھے وہ قاہم رہتے ہیں ۔

 اپنے معاملات اور زات کا محاسبہ کریں اور ریل کے پہیہ جیسے ہوجاہیں فولاد کیطرح مظبوط بھی مقناطیس جیسے جازب نظر بھی اور حالات کیساتھ چلنے والوں کی طرح کامیاب بھی ۔

بقول صدا انبالوی ،

چلو کہ ہم بھی زمانے کیساتھ چلتے ہیں

نہیں بدلتا زمانہ تو ہم بدلتے ہیں

تحریر و تحقیق ،

شاندار بخاری

مقیم مسقط

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

باکمال شاعر و نثر نگار طارق ملک

ہفتہ اکتوبر 14 , 2023
طارق ملک جن کا اصل نام محمد طارق ہے ، تحصیل لیاقت پور کے مسن قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔
باکمال شاعر و نثر نگار طارق ملک

مزید دلچسپ تحریریں