خوشبوئے اٹک جناب حسین امجد کی” رہگزر”
اظہاراتی عفت میں جب انابیبِ شعری اور اسلوبیاتی صباحت مل جائیں تو پھر کمال سخن دھنک رنگ اور غزلیہ آہنگ خلق کرتا ہے۔ خیالات کی برجستگی ،روانی اور اردو کلاسیکی روایات میں لفظ کے صوتی آہنگ جسم کو رقصاں اور روح کو نادیدہ ناہیدِ ارم سے ملاتے ہیں حسین امجد کی”رہ گزر” آفتاب نو بہار کی مانند منصئہ شہود پر گلرنگ برساتوں کی طرح آئی اور قاری کی سماعتوں اور بصارتوں میں نقش دوام چھوڑتی چلی گئی "رہ گزر” جس کے پاس بھی گئی عشق و وجدان اور علم و آگہی کے موتی بکھیرتی چلی گئی۔ حسین امجد اس دور کے علم و ادب کا نہ صرف اثاثہ ہے بلکہ اخلاقی لحاظ سے ایک "رول ماڈل” ہے۔ حسین امجد اپنی شیریں زبان اور اعلٰی اقدار کی وجہ سے دلوں میں گھر کر لیتا ہے۔ اپنے حسنِ تکلم اور سادگی سے ادبی افق پر راج کرتا ہے۔ صورت صبح درخشاں "حسین امجد” اگر کسی چیز پر اتراتا ہے تو وہ محبوبِ سرورِ کشوراں ، راحتِ عاصیاں، ہادئ گمراہاں، راحتِ قلب و جسم و جاں، قرارِ بے قراراں حضرت محمدﷺ کی نعت گوئی ہے۔
حسین امجد کا اوجِ سخن اس شعر میں دیکھیے۔
قسم خدا کی مجھے ناز ہے مقدر پر
زہے نصیب،کہ حصے میں نعت آپ کی ہے
حسین امجد کے کلام سے اظہاراتی عفت,فکری نظافت اور ندرت خیالی جب اس طرح چھلکے تو قاری بے اختیار ہو کر ان کو "خوشبوئےاٹک”کے لقب سے نواز دیتا ہے۔
حضور ﷺ آپ کا لطف و کرم ہو ساتھ اگر
تو لفظ لفظ کو خوشبو سے بھر بھی سکتاہوں
خیالات کی نیرنگی عسیر الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی۔ مبدا ٕ کاٸنات ، مخزنِ کاٸنات، منشاۓ کائنات، مقصودِ کاٸنات حضرت محمدﷺسے عشق و وارفتگی قلب کو وجدان عطا کرتاہے اور حسین امجد کی زباں بے اختیار کہہ اٹھتی ہے۔
مرے وجدان میں جو روشنی ہے
حوالہ میرے جینے کا بنی ہے
ثنا ٕ خوانوں میں اس کے نام آیا
حسین امجد مقدر کا دھنی ہے
حسین امجد نعت گوئی کی انابیب سے اسطرح واقف ہے کہ اس کی برجستگی خوشہ چینی کرتی نظر آتی ہے۔ اس کی نظریں یہاں کب ٹکتی ہیں بلکہ وہ طٰہٰ و یٰسین ، آبروئے زمین ،اکرم الاکرمین’ مراد المشتاقین، شمس العارفین، سید المرسلین اور مورثِ کمالاتِ اول و آخرین حضرت محمدﷺ سے آس لگاتا ہے۔ اور اسلوبیاتی صباحت سےمزین یہ شعر کہہ اٹھتا ہے: ۔
دوام بخشیں مرے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو
کہ شعر آپ کے شایان ہو نہیں سکتا
یہ روزِ حشر پڑھے نعت آپ کی امجد
تو کیا نجات کا سامان ہو نہیں سکتا ؟
حسین امجد جہاں عشقِ رسول ﷺ سے سینے کو منور رکھتا ہے وہاں آپ کی درخشاں اہل بیت عظام سے بھی مودت کا اظہار کرتا ہے۔ عشق رسولﷺ مکمل ہی تب ہوتا ہے جب مودت اہل بیت رسول ﷺ سے دامن مہکتے شگوفوں کی طرح ہو۔ اپنی نظم نذر حسین، میں کیا خوب رعناٸی ٕ خیال کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
مرے سینے میں جب تک دم رہے گا
حسینؑ ابن علیؑ کا غم رہے گا
غمِ شبیرؑ کا یہ معجزہ ہے
غم شبیرؑ میں عالم رہے گا
حسین امجد کی شاعرانہ صلاحیتیں جب حمد ، نعت میں بھر پور کردار ادا کرتی ہیں تو اسکی موسیقی پسندی اور فنون لطیفہ سے وابستگی اس کے سخن میں پھبن اور کلیوں کا بانکپن پیدا کر دیتی ہے اور وہ رعنایٸوں اور تابانیوں سے الفاظ کا حسن کشید کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ انسان کی زندگی کو قفس کے بند پرندے سے تشبیہہ دیتا ہے اور قفس میں پرندے کی موت سے پیدا ہونے والے درد کو زیست کی "رہگزر” پر کچھ اس طرح محسوس کرتا ہے۔
رہ گزر سے ہوا گزر خاموش
کٹ گیا زیست کا سفر خاموش
پھڑ پھڑاہٹ قفس میں ختم ہوٸی
اور بکھرے پڑے ہیں پر خاموش
موجودہ دور کی بے چینی حسین امجد کو رلا دیتی ہے۔ ایسا دور جس میں سیاسی انتشار ، مذہبی منافرت ، دین سے دوری جس نے ہمیں بچوں کی دریدہ لاشیں بہنوں کی سسکیاں ، اور ماوں کی آہیں دی ہیں۔جہاں غریب اتنا غریب ہے کہ اس کو کوئی دوست نہیں ہے جو اس کا پرسانِ حال ہو۔ نفرت کا آسیب اور معاشرے کی بے راہ روی انسان کے افکار کو کرچی کرچی کر رہی ہے۔ ایسے ماحول میں حسین امجد ایک بہت ہی تڑپا دینے والا شعر کہہ اٹھتا ہے :۔
اس دور میں جینا کوئی آسان نہیں
جس دور میں جینے کی دعا مانگ رہا ہوں
بعض دفعہ انسان اس لیے زندہ رہتا ہے کہ اس کی زندگی کے آزار اس میں زندہ ہوتے ہیں ۔ دنیا جب دکھوں کا سمندر ہے تو اس سمندر میں غم بھی ملتے ہیں حسین امجد دکھوں کے سیلاب میں بہہ جانے والی بستی کو بھولتا نہیں ہے کیونکہ اس بستی میں اس نے زیست کا سفر جن کوچہ و بازاروں میں کسی ہم نشیں کے ساتھ گزارا ہوتا ہے اور وہ اس سے جدا ہو گیا ہے وہ اس کو اثاثہ ہوتے ہیں ۔ جیسے:-
بہا تو لے گیا سیلاب میری بستی کو
مگر وہ کوچہ و بازار مجھ میں زندہ ہیں
میں اس لیے بھی سلامت ہوں ایک مدت سے
کہ میری جان کے آزار مجھ میں زندہ ہیں
حسین امجد خود ہی مسافر ہے اور خود ہی "رہ گزر”اس کا فن اسکے اندر کی موسیقیت ہے حسن نظر رکھتا بھی ہے حسن نواز بھی ہے۔ اخلاق و مروت کا پیکر بھی ہے اور گداز دل رکھنے والا ایک خوبصورت سوچ کا حامل انسان بھی ہے درج ذیل اشعار میں ردیف ” پانی” کا خوبصورت استعمال کر کے حیرت میں ڈال دیتا ہے: ۔
دیوار گرا کر بھی ، آثار مٹا کر بھی
بے چین رہی موجیں پر جوش رہا پانی
اک دست حناٸی کے ٹوٹے ہوئے گجروں سے
گل رنگ ہوا منظر گل پوش رہا پانی
حسین امجد خوبصورت سوچ سے اور خیالات کی برجستگی سے اپنے قاری کو حیران کر دیتا ہے اور پڑھنے والا سوچوں میں ڈوب جاتا ہے کہ کیسی خوبصورت بات چھوٹی سی بحر میں انتہاٸی خوش اسلوبی سے بیان کر دی ۔
یہ موسم سرمٸی ایسے نہیں ہے
کسی کی آنکھ میں کاجل پڑا ہے
حسین امجد اپنے اوجِ سخن سے پہچانا جاتا ہے محبوب کو بام نظر میں رکھ کر بہاروں کا نشہ لینا کوٸی آسان کام نہیں ہے۔ یہ خاصا ” رہ گزر” میں کٸ جگہ نظر آتا ہے۔ کیونکہ وہ ایسا بلبل ہے جو پھولوں کی لطافت کو بخوبی سمجھتا ہے حسن فطرت کاٸنات میں رچا بسا ہے جسے شاعر شعروں میں کشید کر کے سماعتوں اور بصارتوں میں رس گھولتے ہیں حسین امجد بھی حسن فطرت کی جاذبیت کو کچھ اس رنگ میں بیان کرتا ہے۔
یقیناً بام پر آنے سے اس کے
فضا میں گلستاں پھیلا ہوا ہے
کبھی سرگوشیاں کرتا تھا مجھ سے
وہ آنچل اب کہاں پھیلا ہوا ہے؟
کچھ شاعر نعت سے غزل اور کچھ غزل سے نعت کی طرف سفر کرتے ہیں ۔ حسین امجد نے ایک غزل میں نعتيہ رنگ کا ایسا شعر لکھا ہے کہ مدتوں یاد رکھا جاۓ گا۔
کہتے ہیں کہ سب کو جہالت واوھام کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر لانے والے سید ابرار ، احمدِ مختیار، مدنی تاجدار، حبیبِ غفار، محبوبِ ستار، خاصہ ٕکردگار، شافع یوم قرار، صدرِ انجمنِ لیل و نہار اور آفتابِ نو بہار حضورﷺ جب اندھیرے میں مسکراتے تھے۔ تو دندان مبارک سے نکلنے والے نور سے گھر کے دریچے تک روشنی پھیل جاتی تھی۔ امہات المومنین اپنی گری ہوٸی سوٸی تک اس نور مبین سے دیکھ لیتی تھیں ۔ حسین امجد چونکہ عاشق رسولﷺ بھی ہیں تو وہ اپنی غزل میں نعتیہ نظافت کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں: ۔
خزاں رسیدہ بدن میں بہار بھرنے کو
تمھاری شوخ ہنسی مستعار لوں گا کبھی
اسی سوچ کو ایک اور جگہ یوں بیان کرتے ہیں: ۔
مرے ہاتھوں کو حیرت سے نہ دیکھو
ہنر ادراک سے لپٹا ہوا ہے
مری بخشش کا واحد راستہ بھی
شہِ لولاک سے لپٹا ہوا ہے
حسین امجد کے غزلیہ رنگ کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں سہل ممتنع اور والہانہ پن پایا جاتا ہے۔ قلب و نظر کو نظافت کی راہ پہ گامزن کرنے کے لیے وہ تشبیہ اور استعارے بھی استعمال کرتا ہے۔ وہ مستقبل کو حال سے منطبق بھی کرتا ہے اور مستقبل کی بات بھی سمجھتا ہے ۔ جیسے اس شعر میں اس کا خوبصورت انداز دیکھیے:۔
گریزاں خاک سے کیوں ہو رہے ہو
اگر اس خاک پر سونا پڑا تو
وہ حسن محبوب پر گلوں کو نچھاور کرنے کی دعا مانگتا ہے کیونکہ غزل میں رومانی مزاج رکھنے والا شاعر ہے اس لیے ایسی باتیں اس کے قلم سے بے اختیار نکلتی ہیں اور سننے والا اسکے قلم کے سحر سے نکل نہیں پاتا: ۔
خدا کرے کہ مری عمر اس طرح گزرے
گلاب تیری جبیں پر نثار کرتے ہوئے
رومانی مزاج حسین امجد کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتا ہے اس کا حسن نظر اسے اوج سے ”رہ گزر“کی موج تک لے آتا ہے اور حسن ضیا پاش دیکھنے کے لیے تلملا اٹھتا ہے۔
تصویر کاری اور پیکر تراشی اس کا حسنِ قلم ہے۔
تمھارے حسن ضیا پاش کی زیارت کو
ہم آسماں سے زمیں پر اتر کے دیکھتے ہیں
جادہ ٕ سخن پر گامزن شوکتِ الفاظ اور رمزیت و ایماٸیت سے واقف حسین امجد کی کتاب ” رہ گزر“ سے شعروں کا انتخاب میرے لیے خاصا مشکل تھا کیونکہ وہ ” ایک سے بڑھ کر ایک“ کے مصداق ہر شعر فکری فنی اور اوج سخن کے اعتبار سے اعلی و ارفع تھا۔ حسین امجد کا فن میرے لیے بیان کرنا گویا ” سورج کو آنکھ دکھانا“ تھا لیکن پھر بھی ایک ادنٰی سے کوشش آپ کے سامنے ہے۔
آخر میں اس شعر کے ساتھ میری دعا ہے کہ خدا وند ستار العیوب حسین امجد کو حیات طویل سے نوازے تاکہ وہ ایسا ہی درخشاں کلام لکھتا رہے۔ آمین!
وہ اس لیے مزاج آشنا نہیں
کہ حرف حرف مجھ کو جانتا نہیں
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔