اپنے دفاع میں راحت فتح علی خان کا مزہبی ٹچ
گزشتہ دنوں راحت فتح علی خان متحدہ عرب امارات میں ‘گولڈن ویزہ’ لینے کے لیئے دبئی آئے ہوئے تھے۔ دبئی میں مقیم ہمارے ایک معروف برٹش پاکستانی دوست ثمر گل خان ہیں جو پاکستانی اخبار نویسوں اور فنکاروں وغیرہ کی میزبانی کے لیئے ہمیشہ پیش پیش ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ راحت فتح علی خان کی تصاویر دیکھیں تو بہت خوشی ہوئی۔ راحت فتح علی خان فن موسیقی میں پاکستان، انڈیا اور دنیا بھر میں اردو اور پنجابی بولنے والوں کا دل موہ لیتے ہیں۔ ان کے چاہنے والے ان کی آواز اور سروں کو دل سے سنتے اور سراہتے ہیں۔ ان میں سے کون ہے کہ جس نے ان کا یہ گیت نہ سن رکھا ہو، "جیا دھڑک دھڑک جائے”۔ انہوں نے پاکستان ہی نہیں انڈین فلموں کے لیئے بھی گیت گائے ہیں۔ چونکہ راحت فتح علی خان کا تعلق اور رشتہ داری مرحوم قوال اور گلوگار نصرت فتح علی خان سے بھی ہے لھذا پاکستانی شہریوں کی ان سے محبت اور انسیت دو گنا ہے۔ جب بھی راحت فتح خان کا نام آتا ہے موسیقی اور سر سنگیت سے پیار کرنے والے لوگ ان سے ایک انجانی سی محبت اور عقیدت محسوس کرتے ہیں۔
مرحوم نصرت فتح علی خان کے تعارف اور گیت و سنگت کی تعریف کرنا سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی اردو پنجابی قوالیاں اہل مغرب اور جاپانی لوگ بھی سنتے تھے تو ان پر ایک سحر سا طاری ہو جاتا تھا۔ دنیا کی بہت سی زبانوں میں نصرت فتح خان کی قوالیوں کو ڈب کیا گیا ہے۔ خاص طور پر ان کی چند مشہور قوالیاں مثلا "دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر”، کو کچھ انگریز گلوکاروں نے بھی گایا ہے۔ خود راحت فتح علی خان نے بھی نصرت فتح علی خان کی قوالیوں کو انہی کی طرز پر اپنی آواز میں گا کر سماں باندھا ہے۔ نصرت فتح علی خان کا خاص کر قوالی اور غزلوں کی گائیکی میں بہت بڑا نام تھا مگر راحت فتح خان کی آواز کی کھنک اور ورسیٹلٹی نے مقبولیت میں اپنے چچا نصرت فتح علی خان کی شہرت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ میں خود موسیقی کو اور راحت فتح علی خان کو بہت پسند کرتا ہوں۔ موسیقی کٹھن اور پتھر دل کو بھی نرم کر دیتی ہے۔ مجھے جب بھی موسیقی سننے کا وقت ملتا ہے تو میں راحت فتح علی خان کی کوئی نہ کوئی غزل یا گیت نکال کر ضرور سنتا ہوں۔
موسیقی اور اچھی گفتگو کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر،
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر.
اسی طرح شیکسپیئر کا ایک قول بھی ہے کہ "جس آدمی کا دل اچھی موسیقی سے نرم نہیں ہوتا اسے اچھی بات بھی متاثر نہیں کرتی”۔ یہی وجہ ہے کہ موسیقی پسند نہ کرنے والے عموما سخت اور سنگ دل ہوتے ہیں جبکہ موسیقی کے دلدادہ نرم خوئی اور رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے جو فنکار خود موسیقی گاتے ہیں وہ کس قدر نرم دل ہوتے ہونگے اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔
گزشتہ روز اکرم شفیع صاحب نے راحت فتح علی خان کی اپنے ملازم پر تشدد کی ویڈیو بھیجی تو موسیقی کے مابعد مثبت اثرات اور وجد جیسی کیفیات کا میرا یہ سارا بھرم ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گیا۔ یقین نہیں آیا کہ یہ تشدد راحت فتح علی خان ہی کر رہے تھے۔ موسیقار اور گانے والے تو بہت اعلی ظرف اور نرم خو ہوتے ہیں۔ راحت فتح خان کا تعلق تو ویسے بھی نصرت فتح علی کے خاندان سے ہے جو بہت نازک مزاج اور دھیمے لہجے کے لوگ ہیں۔ میں نے اس ویڈیو کی تصدیق چاہی تو اکرم شفیع صاحب نے بتایا کہ اس ویڈیو کی تصدیق خود راحت فتح علی نے یہ وضاحت دے کر کی ہے کہ جس "بوتل” کی وجہ سے انہوں نے اپنے ملازم کی پٹائی کی اس میں پیر کا دم کیا ہوا پانی تھا۔
فنکار پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں۔ راقم الحروف راحت فتح علی خان کا فین تھا اس واقعہ نے میری ججمینٹل سوچ کے تار و پو ہلا دیئے۔ یہ سچ ہے کہ انسان کی اصل شخصیت و کردار وہ نہیں جو وہ کسی خاص روپ میں پبلک کے سامنے ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے ایک سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کراچی میں چھاپہ مار کر ایک شراب کی بوتل پکڑی تھی جو بعد میں شہد میں بدل گئی تھی۔ میرے کو اپنے پسندیدہ فنکار کا یہ اصل چہرہ دیکھ کر اتنا دکھ نہیں ہوا جتنا اس بات پر ہوا ہے کہ راحت فتح علی خان سیاست نہیں ہیں اور پھر جس گھرانے سے ان کا تعلق ہے ان سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اپنے دفاع کے لیئے مذہب کا ناجائز استعمال کریں گے۔ راحت فتح علی خان نے اپنی سرگم گم کی، یہ ان کا ذاتی فعل تھا اس سے قانون کے سوا کسی کو کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ شاید راحت فتح خان بھی گلوگاری چھوڑ کر سیاست میں آنا چاہتے ہیں جس وجہ سے اپنے دفاع کے لیئے انہوں نے اس واقعہ کو تھوڑا سا مذہبی ٹچ دیا، اگر وہ نہ بھی دیتے تو ان کے خلاف کونسی کارروائی ہونی تھی؟ پہلے اس طرح کے کیسوں میں کچھ نہیں ہوا تو اس کیس میں بھی کچھ نہیں ہونا تھا۔ انہوں نے مذہب کی تذلیل کر کے خواہ مخواہ ایک بڑا اخلاقی جرم کیا کہ اس پائے کے فنکار کو یہ حرکت زیب نہیں دیتی تھی۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔