سولر بجلی کی خریداری: وزیر اعظم کا مستحسن اقدام
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے حالیہ اجلاس میں صارفین سے سولر بجلی کے خریداری نرخوں میں کی گئی کمی پر سختی سے نوٹس لیا گیا ہے۔ پاور ڈویژن نے سولر بجلی خریداری کے نرخوں کو 27 روپے فی یونٹ سے کم کر کے 10 روپے فی یونٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر وزیر اعظم پاکستان نے واضح کیا کہ شمسی توانائی سے متعلق حکومتی پالیسی اور ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ تاہم اس حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے پاور ڈویژن کو ضروری ہدایات جاری کی گئیں۔
شمسی توانائی کی پالیسی پر نظر دوڑائیں تو پاکستان میں متبادل توانائی کے فروغ کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے سبب توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ دی گئی۔ پاکستان میں بھی 2015 کے بعد سے شمسی توانائی کے فروغ کے لیے متعدد منصوبے متعارف کرائے گئے جن میں نیٹ میٹرنگ پالیسی خاص طور پر نمایاں ہے۔ اس پالیسی کے تحت سولر پینل لگانے والے صارفین سے اضافی بجلی خریدی جاتی رہی ہے مگر حالیہ 27 روپے فی یونٹ کی خریداری کے حکومتی فیصلے نے اس پالیسی کو ازسرنو تشکیل دیا ہے۔
توانائی ماہرین کی رائے میں حکومت کی نئی پالیسی درست سمت میں ایک اہم قدم ہے کیونکہ سابقہ نظام کے تحت صارفین سے لاگت کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہنگی بجلی خریدی جا رہی تھی۔ رپورٹ کے مطابق، سولر بجلی کی پیداواری لاگت 6 سے 8 روپے فی یونٹ بنتی ہے جسے حکومت 27 روپے فی یونٹ خرید رہی تھی۔ دوسری طرف عام صارفین کو یہی بجلی اوسطاً 47 روپے فی یونٹ کے نرخ پر مل رہی تھی جو غیر منصفانہ اور غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا۔
دوسری جانب سولر پینل رکھنے والے صارفین کی بھی کچھ جائز شکایات ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ وہ حکومت کو 10 روپے فی یونٹ بجلی فروخت کر کے دوبارہ وہی بجلی 47 روپے فی یونٹ کیوں خریدیں؟ یہ ہم پر سراسر ظلم ہے کہ ہم 10 لاکھ کے سولر پینل لگاکر بھی 47 روپے فی یونٹ کے حساب سے حکومت سے مہنگی بجلی کیوں خریدیں؟ اس حوالے سے حکومتی پالیسی میں شفافیت کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے تاکہ صارفین کے اعتماد کو برقرار رکھا جا سکے۔
وزیر اعظم کی ہدایات کے مطابق یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ شمسی توانائی کی پالیسی میں بار بار رد و بدل سے گریز کیا جائے اور عوام کو تمام فیصلوں سے بروقت آگاہ رکھا جائے۔ موجودہ گرمی کے موسم میں بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ عوامی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں اور ماضی میں لوگوں کو مہنگی بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لیے اپنے گھریلو سامان تک فروخت کرنا پڑا تھا۔
حکومت کو چاہئیے کہ وہ بجلی کو ایک بنیادی ضرورت سمجھتے ہوئے عام صارفین کے لیے اس کی قیمت کو پیداواری لاگت کے قریب تر رکھے تاکہ تمام فریقین کے لیے ایک متوازن اور قابل قبول حل پیش کیا جا سکے۔ امید ہے کہ ارباب اختیار اس طرف ضرور توجہ دیں گے۔ ان شاء اللہ
Title Image Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |