تحریر: شہزاد حسین بھٹی
کالم: سین
گذشتہ دنوں پنجابی زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے مصروف عمل تنظیم "دل دریا پاکستان ” اور پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج اینڈ کلچر (پلاک) کے زیراہتمام ساتواں سالانہ ایوارڈ لاہورمیں منعقد ہوا جس میں پنجابی زبان و ادب کی خدمت کرنے والے لکھاریوں کو ان کی تخلیقات پر پنجابی سیوک ایوارڈز دیئے گئے۔ اس تقریب کی مہمان خصوصی ڈی جی پلاک ڈاکٹر صغرا ء صدف تھیں۔اس تقریب میں ضلع اٹک میں پنجابی کے پہلے پروفیسر غلام ربانی فروغ کی پچاس سالہ پنجابی زبان و ادب کی خدمات پر "پنجابی سیوک ایوارڈ” سے نوازا گیا۔
پنجابی میں ماسٹرز کرنے والے پروفیسر غلام ربانی فروغ گورنمنٹ کالج پنڈی گھیب اٹک میں پنجابی استاد مقرر ہوئے اور پہلے پروفیسر تھے جنہوں نے ضلع اٹک میں پنجابی کی ترویج کے لیے بے پناہ خدمات ادا کیں۔ 1932ء میں پیدا ہونے والے غلام ربانی فروغ نے اپنے کیرئیر کے دوران ضلع اٹک کے مختلف کالجوں میں اپنی تعیناتی کے دوران اپنے ہزاروں شاگردوں کو پنجابی ز بان و ادب کی طرف راغب و تیار کرنے کے ساتھ ساتھ پنجابی نثر پر بھی بے پناہ کام کرتے رہے۔ معروف ادیب رضا ہمدانی، عظیم بھٹی اور پروفیسر پروین ملک جیسے نامور پنجابی ادیبوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ ان کے کئی مجموعہ کلام شائع ہوئے جن میں "وسنا رہووے گراں ” نے بے پناہ شہرت پائی۔ اس مجموعہ کلام میں آپ نے پہلی بارپنجابی کے کیمبلپوری لہجے کو متعارف کروایا۔ پنجابی اور مقامی کیمبلپوری لہجے میں آپ نے بھرپور نظمیں اور غزلیں تخلیق کیں جنہیں ادبی حلقوں میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ آپ کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یورنیورسٹی نے ایک طالبہ مہرین مشتاق سے2019 میں غلام ربانی فروغ فن اور شخصیت پر ایم فل کا مقالہ لکھوایا۔
پروفیسر غلام ربانی فروغ کے آباو اجداد کا تعلق گگن تحصیل فتح جنگ اٹک کے پسماندہ علاقے سے ہے۔آپ کے والد فتح محمدریلوئے کے شعبہ انجینئرنگ سے وابستہ تھے۔آپ کا گھرانہ صوفیاء کرام سے خاصی عقیدت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے پنجابی صوفیاء کرام کے کلام سے بے پناہ استفادہ حاصل کیا۔ آپ کے کلام میں بھی روحانیت سے لگاؤ اور عارفانہ کلام کے رنگ جھلکتے ہیں۔
اٹک میں پہلی بار مشاعروں میں پنجابی زبان میں شاعری پڑھنے کی روایت آپ نے قائم کی اور نئے لکھاریوں کو اُردو کے ساتھ ساتھ پنجابی اور مقامی زبان کیمبلپوری لہجہ میں لکھنے کی تاکید کرتے اور نئے لکھاریوں کی اصلاح کرکے ان کی شاعری میں فنی اورتکنیکی پہلو میں پختگی کے ساماں پیدا کیے۔آپ نے پچاس سالہ پنجابی کی عظیم خدمات سرانجام دیں۔ دل دریا پاکستان رجسٹرڈ نے اٹک کی سرزمین کے اس سپوت کی خدمات کو سراہتے ہوئے پنجابی سیوک ایوارڈ دے کراٹک کے ادبی حلقوں سے داد ِتحسین وصول کی۔ دل دریا پاکستان پنجابی کی واحدنمائندہ تنظیم ہے جس کی شاخیں پنجاب کے ہر ضلعے میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر عامر ظہیر بھٹی کی سرپرستی میں یہ تنظیم عملی طور پر بے پناہ ادبی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ ہر سال ماں بولی دیہاڑ کے حوالے سے پروگرام کرائے جاتے ہیں جس میں پاکستان کے طول و عرض سےپنجابی لکھاری شرکت کرتے ہیں۔ علی احمد گجراتی اس تنظیم کے روح رواں ہیں جو تمام پنجابی حلقوں سے ہر وقت رابطے میں رہتے ہیں اور پنجابی کی ترویج کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے رہتے ہیں جس پر ان کی خدمات کو نہ سراہنا بڑی زیادتی ہوگی۔میں سمجھتا ہوں کہ علی احمد گجراتی ایک پنجابی تحریک کا نام ہے جس نے پنجاب میں پنجابی زبان کے عملی نفازکے لیے ہر پلیٹ فارم سے آواز اُٹھائی ہے۔ان کا یہ دیرینہ خواب ہے کہ پنجاب کے سکولوں میں پہلی جماعت سے لے کر میٹرک تک پنجابی کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ ہماری نوجوان نسل اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کر کے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپناکلیدی کردار ادا کریں۔ پنجابی پاکستان کی سب سے بڑی زبان ہے بدقسمتی سے ابھی تک اس کا جائز حق اسے نہیں دیا جا رہا جوکہ سراسرزیادتی ہے۔
ٍ اٹک میں پنجابی کے کیمبلپوری لہجے کی بنیاد بھی پروفیسر غلام ربانی فروغ، پروفیسر نصرت بخاری اور مشتاق عاجز جیسی قدآور شخصیات نے رکھی ہے اور پنجابی کے اس لہجے کو پنجاب بھر میں منوانے لے لیے اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے دیگر اضلاع کی طرح اٹک میں بھی ادبی حلقوں میں گروپ بندی زہر قاتل ثابت ہو رہی ہے۔ خود نمائی اور سستی شہرت حاصل کرنے کے حامل کچھ افراد پنجابی کے کیمبلپوری لہجے کے رستے میں مختلف رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جس کی مثال پروفیسر غلام ربانی فروغ کو ان کی خدمات پر ملنے والے ایواڈ پر پُراسرارخاموشی ہے۔ چاہیے تو یہ تھاکہ ضلع اٹک کے تمام ادبی حلقے اس ایوارڈ پر پروفیسر غلام ربانی فروغ کو داد تحسین پیش کرتے مگر بعض حلقو ں نے مبارک باد تو دور کی بات اس ایوارڈ پر تبصرہ کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہ کی۔پروفیسر صاحب اس وقت نوئے برس کے قریب ہیں اور اٹک کے سینئر ترین پنجابی اور اردو کے شعراء میں سے صرف وہی حیات ہیں۔ ان کے تمام ہمعصر دنیا فانی سے داعی اجل روانہ ہو چکے ہیں۔کچھ حاسد نوعمر لکھاری شہرت کے بھوکے بہت جلدی میں ہیں جنکی تعلیمی قابلیت میڑک یا انٹر سے زیادہ نہیں وہ اس کاوش میں تھے کہ ان کو پنجابی سیوک ایوارڈ دیا جائے اس کے لیے انہوں نے پاپڑ بیلے مگردل دریا پاکستان نے میرٹ پر ایوارڈ دینے کی اپنی روایت کو برقرار رکھ رکر تما م اہل قلم و اہل دل لکھاریوں کے دل جیت لیے ہیں۔
میں دل دریا پاکستان اور پلاک کی انتظامیہ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس خوبصورت تقریب کے منعقد کرنے اور حقیقی ایوارڈ کے مستحق افراد کو منتخب کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور دُعا گو ہوں کہ مذکورہ تنظیم اپنی شاندار ادبی خدمات کی روائیت کو جاری و ساری رکھے گی۔
ایم ایس سی ماس کیمونیکشن، ایل ایل بی
مصنف،صحافی و کالم نگار لاہور
سیکرٹری انفارمیشن، پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ,پنجاب،
سابق ایڈیٹر ہفت روزہ “سین “
مصنف “کمرہ نمبر 109” کالموں کا مجموعہ
ممبرنیشنل پریس کلب اسلام آباد،ممبرانٹرنیشنل پاور آف جرنلسٹس(آئی، پی، او ، جے)،
ممبر آل پاکستان جرنلسٹس کونسل(اے پی جے سی)،
ممبر ایمنسٹی انٹرنیشنل (اے آئی)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔