پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی

پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی

پنجاب لیجسلیٹو کونسل 1921 میں قائم ہوئی ۔ضلع اٹک سے اس کے ممبران یہ تھے
1921 سکندر حیات خان واہ
1924 سکندر حیات خان واہ
1927 ملک امین شمس آباد
1930 ملک امین شمس آباد
1937 پنجاب پراونشل اسمبلی قائم ہوئی ۔اس میں اٹک ضلع کی تین سیٹیں تھیں۔اٹک نارتھ میں تحصیل اٹک، فتح جنگ کی باہتر ذیل، اور پنڈی گھیب کی بسال اور ناڑا جلوال ذیل شامل تھیں۔اٹک سنٹرل میں پنڈی گھیب کی دندی، کمڑیال، کھوڑ ، کھنڈا کامل پور، تھٹی نور احمد شاہ ذیل شامل تھیں۔اٹک جنوبی میں تحصیل تلہ گنگ پوری اور پنڈی گھیب کی جنڈ، نرڑہ، مکھڈ اور میرا ذیل شامل تھیں۔ان سیٹوں پر کامیاب ہونے والے یہ حضرات تھے۔
اٹک نارتھ مظفر خان
اٹک سنٹرل نواز خان
اٹک ساؤتھ محی الدین لال بادشاہ
1946 میں پنجاب پراونشل اسمبلی کے ممبران یہ تھے
اٹک نارتھ ممتاز علی خان
اٹک سنٹرل نواز خان
اٹک ساؤتھ محی الدین لال بادشاہ

1950میں مغربی پنجاب کو پنجاب کا نام دیا گیااور 1951میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخابات ہوئے ان میں ملک امین کے بیٹے ملک اکرم اور محی الدین لال بادشاہ کامیاب ہوئے۔
ہمارے نانا قاضی عبدالحق ریونیو اسسٹنٹ (بحالی) سرگودھا کے ریڈر تھے۔ مارچ 1951 میں انہیں ہموکا(خوشاب) پولنگ اسٹیشن پریزائیڈنگ آفیسر مقرر کیا گیا۔ انہی 4 تالے، 4 لکڑی کے ڈبے، مہر، پیڈ، پنچ، سوئی، بیگ (تھیلا) اور سیل کرنے کے لیے لاکھ کے 23 ٹکڑے دیے گئے۔
آزادی کے بعد ملک میں ہونے والے پہلے براہ راست انتخابات مارچ 1951 کے درمیان پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے لیے ہوئے۔ انتخابات 197 نشستوں کے لیے ہوئے۔ مسلم لیگ نے 153 نشستیں ،جناح عوامی لیگ 32 ،جماعت اسلامی ایک اور آزاد امیدوار 17 منتخب ہوئے ممتاز دولتانہ وزیر اعلیٰ بنے۔ یہ اسمبلی اکتوبر 1955 میں مغربی پاکستان ون یونٹ کے قیام پر تحلیل کر دی گئی۔
1947 تک صرف سابقہ فوجی اور 25 روپے سالانہ مالیہ دینے والے ووٹ ڈال سکتے تھے اس طرح آبادی کا صرف گیارہ فیصد حصہ ووٹر تھا۔ صرف زراعت پیشہ قبائل کے افراد ہی دیہی حلقوں میں انتخابات لڑ سکتے ہیں۔1970 کے الیکشن سے پہلے اٹک شہر کی دیواروں پر ایک نعرہ لکھا ہوتا تھا
ووٹر کی عمر اٹھارہ سال
سن 2002 تک ووٹر کی عمر اکیس سال تھی۔پھر اٹھارہ سال ہوگئی
نانا جی کے کاغذات والی صندوقکڑی سے ملھوالہ اور گنڈاکس کی 1955 کی ووٹر لسٹ ملیں۔ملھوالہ کے 550 اور گنڈاکس کے 800 ووٹر تھے۔

پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی


اس لسٹ میں کچھ نامانوس الفاظ ہیں۔ یہ ووٹر لسٹ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کی ہے اس میں ملھوالہ اور گنڈاکس دونوں کو کمڑیال ذیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے . ملھوالہ کی فہرست کے سترہ صفحات ہیں اس کی قیمت چھ روپے اور نو پائی ہے ۔ 1961 میں اعشاری نظام شروع ہوا اس سے پہلے سب سے چھوٹے سکے کا نام پائی (Pie)تھا ۔ایک آنے میں بارہ پائیاں تھیں اور سولہ آنے کا روپیہ تھا۔اعشاری نظام میں پائی کا سکہ ختم کر دیا گیا۔
اس ووٹر لسٹ کو محکمہ انتخابات پنجاب نے دین محمدی پریس سے پرنٹ کرایا ہے ۔اس میں قوم کے سامنے مسلم لکھا ہوا ہے۔
ذیلدار کانام پہلی دفعہ 1975 میں مولانا مودودی صاحب کی نسبت سے سنا۔ان کی رہائش ذیلدار پارک اچھرہ لاہور میں تھی ۔1955 میں ذیلداری سسٹم کے تحت پنڈی گھیب کی گیارہ ذیلیں تھیں۔ اب ان کی جگہ چھبیس یونین کونسلیں بن گئی ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں
میانوالہ، دندی، اخلاص، احمدال، کمڑیال، کھوڑ، غریب وال۔ چکی، میرہ شریف ملہووالی ،کھرپا ،ناڑا ،سگھری ، تھٹھہ ،بسال ، کھنڈہ، مٹھیال ، پنڈ سلطانی ، لنگر ،چھپڑی، جابہ، چھب، تراپ، مکھڈ اور دکھنیر۔
انگریزوں نے سکھ دورکے ذیلداری نظام کو باقی رکھا اس نظام میں، دیہات کو علاقائی اکائیوں میں تقسیم کیا گیا جسے ذیل کہتے ہیں۔ ایک ذیل میں عام طور پر ایک ہی غالب زرعی برادری آباد تھی۔ ہر ذیل کا انتظام ایک ذیلدار کرتا تھا ۔جسے حکومت علاقے کے سرکردہ زرعی خاندانوں میں سے منتخب کرتی تھی گاؤں کا سربراہ، لمبردار کے نام سے جانا جاتا تھا اس کو بھی گاؤں کی غالب زرعی برادری سے منتخب کیا جاتا تھا، اور اسے زمین مالیہ جمع کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ ذیلدار اور لمبردار کے دفاتر موروثی اور ناقابل منتقلی تھے۔ انہیں حکام کی سرپرستی حاصل تھی، جس سے زرعی طبقے میں ان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوئی۔ ذیلداروں اور لمبرداروں کو بھی گاؤں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا پانچ فیصد حصہ ملتا تھا۔
1959 میں نمبردار کی جگہ بی ڈی ممبران نے لے لی اور ذیل کی جگہ پر یونین کونسل کا نظام آ گیا۔ مشرقی پاکستان سے چالیس ہزار بی ڈی ممبران اور مغربی پاکستان سے چالیس ہزار ممبران بنائے گئے ۔ ان بی ڈی ممبران کی ووٹوں سے صدر، صوبائی اسمبلی کے ممبران اور ممبران قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
انتخابی فہرستوں میں ووٹرز کے نام حروف تہجی کے حساب سے لکھے ہوئے ہیں ۔ ہر ووٹر کے ساتھ اس کے والد اور دادا کا نام لکھا ہوا ہے۔ پہلا نام ہے ابراہیم ولد سلطان ولد کرماں اور آخری نام ہے یاسین ولد دھمن ولد شاہیا۔ یاسین صاحب ہمارے پڑوسی تھے یہ محترم سراج الدین صاحب کے بھائی تھے۔
8 بختاں اور 4 بخت بیگم ہیں ۔9 بنی بیگم ، 8 بھاگ بھری ، ن9بھری اور 9 بیگاں ہیں ۔ 6 راجاں اور 5 رانی ہیں۔4 روشنائی اور 4 سراں ہیں۔6 سفیداں اور 8 سیداں ہیں۔9 گاہر بانو اور 6گلاں ہیں۔ 7 مصاحب بانو اور 12 ملکھاں ہیں ،8 مہر بھری اور چھ نور بھری ہیں۔ 9 نیکاں ہیں۔ ملکھاں سب سے زیادہ پاپولر نام تھا۔
اولیاء نام کے چار بندے ہیں۔ایک نام جازو خان ولد امیر خان ہے ۔ایک نام قاضی پانچ نام دراب ، گیارہ سلطان اور تین سمندر ہیں۔دس غلام محمد اور چھ محمد ہیں۔ تین گودڑ اور 9 نور محمد۔سب سے معمر ووٹر کا نام نورمحمد جمعدار ولد سلطان ولد شاہ ولی ہے ان کی عمر نوے سال تھی۔ مردوں میں سلطان سب سے زیادہ پاپولر نام تھا۔

پنڈی گھیب ضلع اٹک کی کمڑیال ذیل میں جودڑہ راجپوتوں کی اکثریت ہے اس میں کمڑیال، ڈھوک قاضی، سہوال، ڈھوکگنجہ،گنڈاکس اور ملھوالہ کے مواضعات شامل ہیں۔اس میں چھبیس نمبردار ہیں 1907 کے رجسٹر ذیلداری کے مطابق اللہ یار خانذیلدار ہے۔ 1946 کی سالانہ رپورٹ میں ڈپٹی کمشنر نے لکھا ہے کہ ملک محمد ایوب خان نے بطور ذیلدار اچھے کام کئے ییں۔کمڑیالذیل میں کوئی انعام دار نہیں ہے

محمد نواز اعوان – تاریخ سرزمین اٹک

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سالانہ میلاد مصطفیؐ اور میلاد ریلی

ہفتہ ستمبر 23 , 2023
ضرورت اس امر کی ہے کہ میلادمصطفی منانے کے ساتھ پیغام مصطفی کو بھی اپنایا جائے،مدرس اسلام کے مضبوط قلعے ہیں انہیں مضبوط کرنا چاہیے
سالانہ میلاد مصطفیؐ اور میلاد ریلی

مزید دلچسپ تحریریں