باکمال شاعر و نثر نگار طارق ملک
نذیر احمد بزمی
ایم فل (اُردو)
چیئرمین
دھریجہ ادبی اکیڈمی دھریجہ نگر، تحصیل خان پور،ضلع رحیم یار خان
اللہ آباد کی دھرتی بہت مردم خیز ہے۔ یہاں کے باسیوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اللہ آباد کا نام روشن کیا۔
خصوصاً سابق ڈپٹی لیڈر آف اپوزیشن پنجاب اسمبلی،اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حاجی محمد سیف اللہ خان اور حضرت کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
ادبی لحاظ سے بھی اللہ آباد کی بہت سی شخصیات خصوصاً اُردو ادب کے معروف ادیب محمد خالد اختر ، علامہ محمد بشیر اختر اور سید ضیاء الدین نعیم نے اپنی توانا تخلیقات سے دنیائے ادب کو جلا بخشی ہے۔
اللہ آباد کی ادبی شخصیات میں طارق ملک کا نام بھی نمایاں نظر آتا ہے۔
طارق ملک جن کا اصل نام محمد طارق ہے ، تحصیل لیاقت پور کے مسن قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے دادا ملک اللہ داد مسن قیام پاکستان کے بعد ترنڈہ محمد پناہ کے نواحی موضع سدھوالی کی بستی ” حاجیاں دی وستی "( حاجیاں دی وستی مسن قبیلے پر مشتمل ہے بستی کے بیشتر افراد نے پیدل سفر طے کر کے حج کیے تھےاس لئے یہ بستی حاجیاں دی وستی کے نام سے معروف ہے ۔ ) سے ترکِ سکونت کر کے اللہ آباد میں مقیم ہوئے ، جہاں طارق ملک حاجی عبد القادر مسن کے ہاں 15 جون 1978ء کو پیدا ہوئے۔
طارق ملک نے 1994ء میں گورنمنٹ بوائز سکینڈری سکول اللہ آباد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔2001ء میں گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج لیاقت پور سے گریجوایشن کی۔ بی ایڈ کے بعد وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم اے اردو (اقبالیات) کر رہے تھے کہ نامساعد حالات کے باعث تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔
طارق ملک زمانہ طالب علمی سے ہی ادبی ذوق کے حامل تھے تاہم اللہ آباد کے معروف شاعر ، ادیب و بابائے صحافت حبیب الرحمٰن مڑل نے جب طارق ملک کو ادبی ماحول فراہم کیا تو وہ بھی شعر کہنے اور نثر لکھنے لگے۔
انہوں نے حبیب الرحمٰن مڑل کے علاوہ ملک کے گراں مایہ شاعر ، ادیب و دانشور سید ضیاء الدین نعیم اور اُردو زبان کے معروف شاعر ظفر حیات ظفر سے بھی کسبِ فیض حاصل کیا۔
طارق ملک 2008ء میں پاکستان کے بڑے گروپ آف نیوز روزنامہ جنگ ملتان اور جیو نیوز سے وابستہ ہوئے اور تا دمِ تحریر اپنی صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
مختلف موضوعات پر ان کے درجنوں مضامین روزنامہ جنگ ملتان میں شائع ہوئے۔
طارق ملک کی پہلی تصنیف ” تاریخِ ریاست اللہ آباد ” ستمبر 2022ء میں جھوک پبلشرز ملتان سے شائع ہوئی جو ریاست اللہ آباد کی تاریخ ، تہذیب و تمدن ، ادب و ثقافت اور مشاہیر کے تذکروں پر مشتمل ہے اور جو ملک بھر کے ادبی حلقوں میں نہ صرف مقبولِ عام ہوئی بلکہ تاریخ کے طالب علموں پر علم و آگہی کے نئے در بھی وا کیے۔
علاوہ ازیں ان کی دو نثری تصانیف اور ایک شعری مجموعہ بھی زیرِ ترتیب ہے۔
طارق ملک بہت عمدہ شاعری کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں جہاں محبتوں کا پیام ہے وہاں انسانی رویوں کے تلخ تجربات و مشاہدات کا اظہار بھی بہت نمایاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں شرکائے محفل کی سماعتوں میں اپنی مرصع شاعری کا رس گھولتے رہتے ہیں۔ ان کے چند شعر ملاحظہ کیجئے۔
بیچتا ہوں پھول اس کے شہر میں
مختصر سا اپنا کاروبار ہے
وہ ایک شخص جو آیا ہے ان کے گاؤں سے
نجانے کیوں اسے ہر شخص بار بار ملا
تم نہ آتے تو مجھے جاں سے گزر جانا تھا
تھک چکی تھیں یہ بہت دیر سے چلتی سانسیں
ہزار قسم کے رنگوں سے ہے نہایا ہوا
تری طرح یہ ترا شہر خوب صورت ہے
چشمِ افلاک نے دیکھا ہے یہ کیسا منظر
سو گئے لوگ تو پھر ایک دیوانہ جاگا
خود کو غلام جان کے بکنے کو آ گئے
ہم کو خرید لیجئے قیمت نہ پوچھئے
جس کے لئے جیتے رہے مرتے رہے طارق
لگتا نہیں اس شخص کو ہم یاد رہیں گے
طارق ملک اپنی فکر و خیال کی بہت با وقار شاعری کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کے متعلق آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم پاکستان کی معروف شاعرہ محترمہ نوشی گیلانی لکھتی ہیں کہ ” طارق ملک کی تخلیقات اور موضوعات میں وقار اور اسلوب میں احترام کے عکس ٹھہرے ہوئے محسوس ہوتے ہیں جو ان کے شاعرانہ لب و لہجہ کو معتبر کرتے ہیں۔ان کی شاعری میں کوئی انفرادیت تو ہے جو دامنِ نظر تھام لیتی ہے اور ذوق کو لطف سے ہم آہنگ کرتی ہے۔ طارق ملک کی شاعری میں نرم خو بے ساختگی متاثر کرتی ہے۔ ایک لطیف سادہ دلی ہے جو ان کے شفاف شعور کا پتہ دیتی ہے”
طارق ملک کی شاعری میں خیالات کی گہرائی اور رفعتِ خیال دونوں موجود ہیں۔ وہ مانوس استعارے اور تشبیہات کا استعمال اتنی مہارت سے کرتے ہیں کہ شعر کا بنیادی خیال مجروح ہونے کی بجائے مزید نکھر جاتا ہے۔ان کے ہاں موضوعات کا تنوع ہے کسی ایک موضوع کی پابندی یا مجبوری نہیں ہے۔ موضوعات کی یہی نیرنگی اور تنوع طارق ملک کے سماجی شعور کی پختگی کو آشکار کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں الفاظ کا چناؤ بہت عمدہ اور مصرعوں کی بنت بھی نہایت خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیے۔
اپنے دل کو عشق میں برباد رکھ
زندگانی اس طرح آباد رکھ
دل یہ تیری دسترس میں دے دیا
تیری مرضی شاد رکھ ناشاد رکھ
پاؤں چومے گی تمہارے ہر خوشی
شرط ہے تو دوسروں کو شاد رکھ
خواب ہے یہ زندگانی خواب ہے
اس حقیقت کو ہمیشہ یاد رکھ
خود کو پانا چاہتا ہے تو اگر
اپنے اندر عشق کی بنیاد رکھ
دل نشیں ہوگا وہ طارق دیکھنا
خواہشوں سے اپنا دل آزاد رکھ
طارق ملک کی کہی ہوئی آزاد نظمیں جن میں ان کا لا متناہی دردِ آگہی اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے ، دلوں کو چھو لیتی ہیں۔ ان کی ایک مختصر سی آزاد نظم ملاحظہ کیجئے۔
مری سانسوں کی ڈوری سے
مرے دل کے جزیرے تک
دکھوں کا اک سمندر ہے
سمندر خشک ہونے کا
کوئی امکاں نہیں ہوتا
جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ طارق ملک کی شاعری نہ صرف قومی اخبارات کے ادبی صفحات اور مختلف قومی میگزین میں شائع ہوئی ہے بلکہ ادبی کتب ” رحیم یار خان کا ادبی جائزہ ” ” غزل آفرینی ” ” ہمارے شاعر ” اور ” سخن واران رحیم یار خان ” میں بھی شائع ہو چکی ہے جبکہ معروف گلوکار اور قوال حاجی ظفر اقبال و ہمنوا ، استاد عاشق حسین توکل ، لطافت حسین خان ڈھاڈی ، عمران ساجد ، خوش الحان خواجہ اشتیاق حسین ، سید ناصر حسین شاہ ، غلام عباس آسی ، سجاد گلانی ، صوفی مختار احمد ، نوید احمد عطاری ، بخش درانی ، ملک غلام یٰسین نائچ و دیگر طارق ملک کی شاعری سے اپنی آواز کا جادو جگا چکے ہیں۔
وہ اللہ آباد اور لیاقت پور کی مختلف ادبی تنظیموں بزم ادب اللہ آباد ، دائرہ ادب اللہ آباد ، ہاکڑہ ادبی فورم اللہ آباد اور حلقہ ادب لیاقت پور کے جنرل سیکرٹری کے علاوہ بزمِ احساس لیاقت پور کے جوائنٹ سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں اب جبکہ وہ لیاقت پور کی سب سے معروف ادبی تنظیم ” لیاقت پور ادبی فورم لیاقت پور ” کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے فروغِ ادب کے لئے کوشاں ہیں۔
طارق ملک مختلف تقریبات کے علاوہ انجمن نو جوانانِ اسلام اللہ آباد کے زیرِ اہتمام اللہ آباد میں منعقدہ سالانہ ” کل پاکستان محفلِ نعت ” میں نقابت کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں ۔
ماضی میں انہوں نے ہاکڑہ ادبی فورم اللہ آباد کے زیرِ اہتمام اللہ آباد میں متعدد ادبی نشستیں اور مشاعرے بھی منعقد کرائے ہیں۔
طارق ملک جو دنیائے ادب میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجئے۔
لوگ جو بردبار ہوتے ہیں
وہ بڑے باوقار ہوتے ہیں
اپنے ہونے کا دم نہیں بھرتے
اہلِ دل خاکسار ہوتے ہیں
جو کسی سے وفا نہیں کرتے
اک نہ اک دن وہ خوار ہوتے ہیں
حد سے بڑھ کر جو مسکراتے ہیں
ان کے دکھ بے شمار ہوتے ہیں
ربط رکھتے نہیں جو لوگوں سے
بے حسی کا شکار ہوتے ہیں
کون دیکھے گا ، کون کھینچے گا
تیر جو دل کے پار ہوتے ہیں
دل دکھاتے نہیں کسی کا جو
اہلِ دل میں شمار ہوتے ہیں
خود پسندی بھی اک وبا ٹھہری
لوگ جس کا شکار ہوتے ہیں
آپ تو عشق کے مخالف ہیں
آپ کیوں بے قرار ہوتے ہیں
اپنے پہلو میں بیٹھنے دیجئے
پھول کے ساتھ خار ہوتے ہیں
آئینے ٹوٹتے ہیں جب طارق
دل بہت اشکبار ہوتے ہیں
نذیر احمد بزمی
ایم فل (اُردو)
چیئرمین
دھریجہ ادبی اکیڈمی دھریجہ نگر، تحصیل خان پور،ضلع رحیم یار خان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔