انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات، میانوالی
پروفیسر عاصم بخاری، میانوالی
انٹرویو کنندہ: مقبول ذکی مقبول، بھکر
سوال : آپ کا مختصر تعارف۔۔۔۔۔؟
جواب
میرا خاندانی نام سید عاصم رضا اور ادبی نام عاصم بخاری ہے۔ خاندان سادات سے تعلق ہے۔ یونین کونسل پکی شاہ مردان میانوالی کے ریکارڈ کے مطابق میری تاریخ پیدائش 16 جولائی 1970ء ہے۔ جب کہ سرکاری ریکارڈ اور اسناد کے مطابق10جون1971ء ہے۔ میرے مطابق اول الذکر درست ہے۔ زندگی کی نصف صدی گزار چکا ہوں۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ سب پڑھنے پڑھانے میں گزری ،قرطاس و قلم سے رشتہ قائم ہے۔ یعنی بقول شاعر
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
سوال : آج کل آپ کہاں ملازمت کررہے ہیں۔۔۔۔۔؟
جواب : گورنمنٹ کالج کالا باغ میانوالی میں صدر شعبئہ اردو کی ذمےداریاں نبھا رہا ہوں۔
سوال : آپ کی تعلیم کیا ہے؟
جواب: طالب ِ علم ہوں۔
ایم فل اردو ہوں۔ اور ڈاکٹریٹ کی منزل کی جانب عازمِ سفر ہوں۔ کیونکہ ہمیں یہی پڑھایا گیا ہے کہ "ازگہوارہ تابہ گور دانش رایجوئید "یعنی پنگوڑے سے قبر تک علم حاصل کرو۔
سوال : ادبی حوالہ/ ادبی خدمات؟
جواب : ادبی خدمات کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو علاقہ بھر میں فروغِ ادب کے لیے بزمِ ادراک و آگہی کا ادبی چراغ روشن کیا۔ جس پلیٹ فارم سے شائقین شعر و ادب کے ذوق کی تسکین کا سامان کرتے ہوئے دریائے سندھ کنارے چاندنی راتوں اور کوہستان نمک کے قدرتی ماحول میں مشاعروں، ادبی نشستوں اور تقاریب کا اہتمام کیا۔ اور آج الحمداللہ مطمئن ہیں کہ
"ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے”
سوال : طباعتی اور اشاعتی سلسلوں کے بارے آپ کیا کہیں گے۔؟
جواب : ادبی تنظیم بزم ادراک و آگہی کے فورم سے فروغِ شعر و ادب کے لیے شعری انتخاب کا سلسلہ 2002ء سے جاری کیا جو کہ خالق لوح و قلم کے فضل سے تا حال جاری و ساری ہے۔ جس سے متعدد انتخاب مثلا ” قرطاس و قلم کی دنیا 2003ء
سارے رنگ محبت کے 2004ء
اشک اشک زندگی 2005ء
شبیر علیہ السلام کربلا وچ2006ء
نکلے تری تلاش میں 2009ءاور اردو کے اہل قلم شعراء 2017ء شامل ہیں۔
ان شعری انتخابات کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں نوخیز، نوآموز شعراء کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا کلام بہ طور نمونہ شامل ہے۔ علاوہ گم نام اور غیر معروف شعراء کو منظر عام پر لانے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ گوشئہ رفتگاں بھی ہے۔ جس میں مرحوم شعراء کا کلام بہ طور یاد شامل کیا گیا ہے۔
سوال : آپ نے تحقیقی و تنقیدی میدان میں بھی کا م کیے ہیں کچھ ان کی تفصیل بتائیں۔۔۔۔۔؟
خواب : مختلف اخبارات رسائل و جرائد کے ساتھ ساتھ” ستار سید کی شخصیت اور فن "پر ایم فل کا تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ راحت امیر نیازی شخصیت اور فن کے موضوع پر کتاب”
سید عطا محمد شاہ کی علمی خدمات "پر کتاب تحریر کی ہے۔ علاوہ ازیں "ابوالمعانی عصری” کے ناول” شنوزہ” کا تجزیاتی مطالعہ کے موضوع پر کتاب لکھی ہے۔
سوال : آپ کے شعری مجموعوں کے کیا نام ہیں۔۔۔۔۔؟
جواب : پتے بکھر گئے۔ 2006ء
ظلم عورت پہ ۔2007ء
مدح ختم الرسل۔2017ء
فردیات عاصم بخاری۔2019ء
ریزہ ریزہ۔2021ء
تم جو چاہو کر سکتے ہو۔2020ء
سوال : نثری مجموعے کون کون سے ہیں۔۔۔۔۔؟
جواب : چراغ جہد البقا۔2005 اور فسانہء محفل 2021ء جب کہ آپ بیتی” گردشِ ایام ” اور کلیات فردیا ت”کِرچیاں”غیر مطبوعہ ہیں۔
سوال : آپ اس موجودہ دور کے تناظر میں کس بات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔۔۔۔۔؟
جواب :
واضح ہو مختصر ہو کرو بات کام کی
عاصم بخاری دور ہے یہ اختصار کا
شاعری ہو یا نثر۔۔۔ لفظی دولت کو کفایت شعاری اور اختصار نویسی کی کوشش رہتی ہے۔ کیوں کہ یہ وہ دور ہے ۔ جس میں سوشل میڈیا کی یلغار ہے۔ قاری کتاب سے بہت دور ہوتا جارہا ہے۔ بے جا طوالت کو ترک نہ کیا گیا تو کتاب بینی اور کتاب خوانی مزید کم سے کم ہوتی جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ مری نظم ہو یا غزل اختصار کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹے گا۔ نثر میں مضمون ہو یا کہانی افسانہ اس میں بھی اسی بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ آپ میرے افسانے کہانیاں پڑھ کر دیکھ لیں۔
ہر اک صنف میں ہم نے عاصم بخاری
کفایت شعاری سے لفظوں کو برتا
ایک اور شعر دیکھیں
نظم ہو کہ نثر، دونوں میں
اپنے ہاں اختصار ، پاؤ گے
اگر شاعری کی بات کی جائے تو میری شاعری میں آپ کو روایت کی پاسداری بھی ملے گی مگر اکثر جگہوں پر روایت سے انحراف بھی ملے گا۔ آپ کی مرضی آپ اسے مزاحمت کا نام دیں یا کوئی اور۔۔۔۔
سوال : آپ کی شاعری کا زاویہ دیگر شعراء سے مختلف ہے کیا محبت کو بھی کبھی موضوع بنایا؟
جواب : جی ہاں! محبت کے موضوع پر بھی بہت لکھا ہے۔ محبت ہی تو اس دنیا کی روح رواں ہے۔ مگر فیض احمد فیض نے کہا تھا
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
سو، میں نے بھی۔۔۔ غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ دوراں کی بات کی ہے۔ چاہے وہ میری شاعری ہو یا میری نثر۔۔۔
لفظی تصویر دور اپنے کی
پیش شعروں کے روپ میں کر دی
اسی ضمن ایک اور شعر دیکھئے گا۔
جیسے محسوس مجھ کو ہوتا ہے
ویسے شعروں میں ڈھال دیتا ہوں
سوال : آپ کی شاعری میں طنز و مزاح کی چاشنی بھی ملتی ہے۔اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
جواب : جی! بقول شاعر
ہر مسافر کی ایک منزل ہے
راستے بے شمار ہوتے ہیں
ہر فن کار، ہر شاعر، ہر ادیب ، ہر لکھاری ، ہر قلم کار ادب میں نظم ہو یا نثر کسی نہ کسی صنف کا انتخاب کر کے اپنے نکتہء نظر کے اظہار کا ذریعہ بناتا ہے۔ میں نے خود شناسی کی۔۔۔ خود کو کھنگالا ٹٹولا۔۔۔ تو مجھے لگا کہ میرے مزاج میں یہی چیز ہے۔ اسی کو استعمال میں لا کر بات کو خوبصورتی سے بیان کر سکتا ہوں۔ سو اسی کو اپنایا اور اسی کو ہی سراہا گیا۔ میں ادب کا طالب علم ہوں ادب میں مجھے ادیب کی یہی تعریف ملی ہے کہ وہ معاشرے میں قلمی جہاد کرتا ہے۔ اس کا کردار تہذیب و ثقافت کے کے لیے دریا کے کناروں کا سا ہوتا ہے۔ جو کہ ایک قوم اور نسل کو اپنی منزل کا راستہ دکھاتا ہے۔ اسے آئینہ دکھاتا ہے کہ ہم نے جانا کدھر ہے اور جا کدھر رہے ہیں۔ اسی کے پیش نظر جہاں ناہمواری نظر آئی مزاح کے رنگ میں پیش کر دی مثلا”
رشوت اک آدھ کوئی لیتا تھا
شاید اک آدھ اب نہیں لیتا
اسی مزاح کا ایک اور شعر دیکھئے گا۔
کوشش کے باوجود عورت کے جسم پر
ملبوس کو لباس کے معنی نہ مل سکے
طنز کا ایک اور شعر دل چسپ انداز
شعر تیرے بھی مختصر عاصم
نسل نو کے لباس کے جیسے
سوال : آپ نے فروغِ ادب کے لئے کون سا منفرد کام کیا؟
جواب : میں نے ادب میں نظم و نثر دونوں میں اختصار نویسی کی راہ اپنائی ہے۔ جو وقت کی ضرورت بھی ہے اور تقاضا بھی۔ اس تجربے میں کافی حد تک میں کامیابی محسوس کر رہا ہوں۔ اور اس کے کافی بہتر اور حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
سوال : مشاعرہ کے بارے آپ کیا کہنا پسند کریں گے؟
جواب : مشاعرہ کے اگر آغاز و ارتقا کی اگر بات کی جائے تو اساتذہ کے حوالے سے کسی شاعر کا خوبصورت شعر یاد آ رہا ہے۔
ہمارا خوں بھی شامل ہے تزئین گلستان میں
ہمیں بھی یاد کر لیناچمن میں جب بہار آئے
فروغِ زبان و ادب میں مشاعرے کا بہت اہم اور مرکزی کردار رہا ہے۔ اس کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں مختلف ادوار کی فضا اور ماحول اس پر اثر انداز ہوتا رہا۔
اگر آج کے مشاعرے کی بات کی جائے تو آج کل کا مشاعرہ کل کے مشاعرے سے یکسر مختلف ہے۔ آج کے مشاعرے پر وقت تغیر و تبدل اور سوشل میڈیا کے گہرے اثرات ہیں۔ آج کے مشاعرے میں حوصلہ افزائی تو شاید ہو رہی ہو البتہ راہ نمائی کا فقدان ہے۔ حالانکہ مشاعرہ نوخیز اور نوآموزوں کے لیے ایک درس گاہ اور تربیت گاہ تھا۔ یہاں سے ادب سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا تھا۔
مگر بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ مقصد کم ہی پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔ جس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ مشاعرہ پھر سے افادیت سے بھرپور ہو جائے۔ اور اس سے کسی کو کچھ حاصل ہوسکے۔
سوال : آج تخلیق ہونے ادب کے بارے اپنی رائے دیں؟
جواب : ادبی خلوص کم ہو تا جارہا ہےجس کے پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔ ادب تو شفافیت کا متقاضی ہے۔ شاعروں ادیبوں کو اپنے منصب کا احساس اور پاس ضروری ہے کہ ان کا لقب تلمیذالرحمان ہے ۔ انھیں اپنے اس عظیم مقام و مرتبہ کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے اندھیری رات میں اپنے حصے کا ادبی چراغ ضرور روشن کرنا چاہیے۔ اپنے ماضی حال اور مستقبل پر غور کریں کہ ادب نے ہمیں کیا عزت اور مقام دیا ہے اور ہم سے ادب کے لیے کیا ہو سکا ہے؟
کچھ نئے ادبی پودے ہر ادیب شاعر کو اس فانی دنیا میں لگا کر جانا چاہیے تاکہ بعد میں یادگار تو ہو۔ گلستان ادب سنسان و ویران اور اجاڑ نہ لگے بلکہ ہمارے بعد ہماری کی گئی کوشش کی ہریالیاں اور خوش حالیاں نظر آئیں۔
بقول شاعر
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
سوال : اعزازات کے بارے بھی بتائیے گا؟
جواب : اللّٰہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ اس نے بے شمار اعزازات سے نوازا ہے۔ متعدد ایوارڈز ملے ہیں۔ مختلف ادبی تنظیموں نے بہت عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کی ہے۔ جو کہ خالق لوح و قلم کا انعام خاص ہے۔ جس پر سراپا شکر ہوں۔
سوال : آپ کی ادارت میں کیا کوئی رسالہ یا جریدہ بھی نکل رہا ہے؟
جواب :جی ہاں!
بچوں کے رسالہ ماہنامہ شعور کالاباغ کا چیف ایڈیٹر ہوں گورنمنٹ کالج کالا باغ میانوالی کے کالج میگزین "وجدان "کا نگران اعلیٰ بھی ہوں۔
اس کے علاوہ کافی رسائل و جرائد کی مجلسِ ادارت و مشاورت میں شمولیت کا اعزاز و افتخار بھی قدرت نے بخشا ہوا ہے۔
سوال : آپ کے ادبی کام تو ماشاءاللہ بہت زیادہ ہیں کیا کوئی تحقیقی کام بھی آپ کی شخصیت فن پر ہوا؟
جواب: جی ہاں!
الحمدللہ! غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان نے ایم اے سطح کا تحقیقی مقالہ 2019ء میں لکھوایا ہے ۔ جب کہ قرطبہ یونیورسٹی پشاور نے عاصم بخاری کی ادبی جہات کے موضوع پر 2020ء میں تحقیقی مقالہ ایم فل سطح پر کرائی ہے۔ مزید یہ کہ عاصم بخاری نثر پر بھی یونیورسٹی سطح پر تحقیق جاری ہے۔
سوال: آخر میں اگر آپ کوئی پیغام دینا چاہیں تو۔۔۔۔۔؟
جواب : نوجوان نسل کے شاعروں و ادیبوں کو ادب برائے ادب کے ساتھ ساتھ ادب برائے زندگی بھی تخلیق کرنے کی طرف شعوری طور پر راغب ہونا چاہئیے۔ موضوع آج اور عصر مسائل کا شعور ہو نا چاہیے
مقبول ذکی مقبول
بھکر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
One thought on “پروفیسر عاصم بخاری سے بات چیت”
Comments are closed.