جیل اصلاحات:لاہور ہائیکورٹ کا تاریخی فیصلہ

جیل اصلاحات:لاہور ہائیکورٹ کا تاریخی فیصلہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

ایک بہت ہی اچھی عدالتی خبر ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں پنجاب کی جیلوں کے نظام فیصلہ جاری کیا ہے جس سے میں جیل خانہ جات میں اصلاحات کرنے کا ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ اس فیصلے میں قیدیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ، خواتین قیدیوں کے لیے الگ جیلوں کے قیام، اور ذہنی امراض میں مبتلا قیدیوں کے علاج و معالجے کو یقینی بنانے جیسے اہم نکات شامل ہیں۔ یہ فیصلہ نہ صرف جیلوں کے نظام کو بہتر بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا بلکہ انسانی حقوق کے تحفظ اور قیدیوں کی بحالی کے لیے ایک جامع حکمت عملی بھی فراہم کرے گا۔

فیصلے میں لاہور، راولپنڈی، اور فیصل آباد میں خواتین قیدیوں کے لیے الگ جیلوں کے قیام کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہ اقدام خواتین قیدیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے نہایت اہم ہے۔ موجودہ نظام میں خواتین قیدیوں کو مرد قیدیوں کے ساتھ مشترکہ جیلوں میں رکھا جاتا تھا جس سے ان کے لیے کئی مشکلات پیدا ہوتی تھیں۔ الگ جیلوں کا قیام ان کے لیے محفوظ اور بہتر ماحول فراہم کرے گا۔

عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لمبے عرصے تک قید میں رہنے والے قیدیوں کو دوبارہ معاشرے کا مہذب شہری بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یہ نکتہ جیل کے روایتی تصور کو چیلنج کرتا ہے اور قیدیوں کی بحالی اور معاشرتی انضمام کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے تربیتی پروگرامز، تعلیمی مواقع، اور نفسیاتی مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔

فیصلے میں اوپن جیلز کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جہاں کم سکیورٹی کے ساتھ قیدیوں کو رکھا جائے گا۔ یہ نظام قیدیوں کی بحالی کے لیے ایک جدید تصور ہوگا جو انہیں ذمہ داری اور خود انحصاری کا احساس دلانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

ذہنی امراض میں مبتلا قیدیوں کے لیے خصوصی وارڈز کی تعمیر اور ان کے علاج و معالجے کے لیے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں منتقلی کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہ اقدام ذہنی صحت کے مسائل کو جیلوں کے نظام میں ایک اہم مسئلے کے طور پر تسلیم کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ملتان اور راولپنڈی جیلوں میں قیدیوں کے علاج کو یقینی بنانا بھی اس فیصلے کا حصہ ہے۔

فیصلے میں راولپنڈی جیل میں اسلام آباد کے 3200 قیدیوں کی موجودگی کو ایک اہم مسئلہ قرار دیا گیا ہے اور اسلام آباد میں جیل کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف راولپنڈی جیل کے رش کو کم کرے گا بلکہ قیدیوں کے لیے بہتر سہولیات فراہم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

حکومت پنجاب کو پروبیشن آفیسرز کی تربیت پر کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ وہ قیدیوں کی بحالی اور ان کے مسائل کے حل میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ یہ تربیت خاص طور پر ذہنی امراض، منشیات کی لت، اور دیگر پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ انسانی حقوق کے تحفظ اور جیلوں کے نظام میں اصلاحات کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد سے نہ صرف قیدیوں کی زندگیوں میں بہتری آئے گی بلکہ معاشرے میں جرائم کی شرح کو کم کرنے اور قیدیوں کو کارآمد شہری بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ یہ فیصلہ ایک ایسا ماڈل فراہم کرتا ہے جسے دیگر صوبے بھی اپنا سکتے ہیں۔

Title Image by Booth Kates from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

مزید دلچسپ تحریریں