پرنس کریم آغا خان کی علمی اور ثقافتی خدمات
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
پرنس کریم آغا خان چہارم اسماعیلی مسلک ایک ممتاز روحانی رہنما، انسان دوست شخصیت اور سماجی کارکن تھے جنہوں نے نزاری اسماعیلی فرقے کے اننچاسویں امام کی حیثیت سے 67 سال تک خدمات انجام دیں۔ ان کی قیادت میں اسماعیلی برادری (جنہیں آغاخان کی نسبت سے آغاخانی بھی کہا جاتا ہے) نے عالمی سطح پر نمایاں ترقی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
پرنس کریم آغاخان 13 دسمبر 1936ء کو جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پرنس علی خان اور والدہ تاجوداولت آغا خان تھیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سوئٹزرلینڈ اور فرانس میں حاصل کی اور بعد ازاں ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1957ء میں اپنے دادا، سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کی وفات کے بعد 20 سال کی عمر میں امامت کا منصب سنبھالا۔
امام بننے کے بعد پرنس کریم آغا خان نے اسماعیلی برادری کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد منصوبے شروع کیے۔ انہوں نے 1967ء میں آغا خان فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، جو تعلیم، صحت، دیہی ترقی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ ان کی قیادت میں آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) قائم ہوا، جو دنیا کے 30 سے زائد ممالک میں سرگرم ہے اور تقریباً 96,000 افراد کو ملازمت فراہم کرتا ہے۔
پرنس کریم آغا خان نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے 1983ء میں کراچی پاکستان میں آغا خان یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، جو ملک کی پہلی نجی بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال قائم کیا جو جدید طبی سہولیات فراہم کرتا ہے۔
ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے آغا خان چہارم نے آغا خان ٹرسٹ فار کلچر قائم کیا جس کے تحت تاریخی عمارات کی بحالی اور ثقافتی منصوبوں پر کام کیا جاتا ہے۔ انہوں نے آغا خان ایوارڈ برائے تعمیرات کا آغاز بھی کیا جو اسلامی دنیا میں نمایاں تعمیراتی کارناموں کو تسلیم کرکے ایوارڈز دیتا ہے۔
پرنس کریم آغا خان نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی 1969ء میں برطانوی خاتون سلیمہ آغا خان سے ہوئی، جن سے ان کے تین بچے ہوئے: زہرہ آغا خان، رحیم آغا خان اور حسین آغا خان۔ یہ شادی 1995ء میں طلاق پر منتج ہوئی۔ دوسری شادی 1998ء میں انارا آغا خان سے ہوئی جن سے ایک بیٹا علی محمد آغا خان پیدا ہوئے۔ یہ شادی 2011ء میں طلاق پر ختم ہوئی۔
4 فروری 2025ء کو پرنس کریم آغا خان 88 برس کی عمر میں لزبن، پرتگال میں وفات پا گئے۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کے بیٹے پرنس رحیم آغا خان کو اسماعیلی نزاری فرقے کا پچاسویں امام مقرر کیا گیا۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |