شبانہ روز محنت والا وزیراعظم
مکرمی وزیراعظم صاحب کا جوش خطاب رنگ لایا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے عید سے پہلے بروز ہفتہ حکومت کی 100دن کی کارکردگی کی وضاحت کرتے ہوئے قوم سے اپنے نشری خطاب میں کہا تھا کہ موجودہ آئی ایم ایف (IMF) پروگرام پاکستان کی تاریخ کا آخری قرضہ ثابت ہو گا۔ اقتصادی سروے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا ہر شہری اس وقت بھی 2لاکھ 80ہزار روپے کا مقروض ہے اور ملک کا مجموعی قرض 67ہزار 525ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ قرض کا 80فیصد سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ وفاق کی آمدن 5ہزار 313 ارب روپے تھی۔ گزشتہ 9ماہ میں اندرونی و بیرونی قرضوں پر 5ہزار 518 ارب روپے سود دیا۔ حکومت کی آمدن اور قرض پر سود کی ادائیگی پر یہ تفاوت معیشت سے نابلد اور عقل کے ایک اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ قرض تو واپس ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ صرف سود کی ادائیگی ہو رہی ہے تو قرضہ کیسے اترے گا؟ ملک میں خوانحصاری کی بھی کوئی پالیسی متعارف نہیں کروائی جا رہی ہے بلکہ عرب برادر اور دوست ممالک کی سرمایہ کاری کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ہم نے کشکول توڑ دیا ہے۔
بلاشبہ گزشتہ انتخابات کے بعد میاں شہباز شریف صاحب نے اپنی ٹیم کے ہمراہ اس عزم کے ساتھ حکومت سنبھالی تھی کہ وہ ملک کو معاشی گرداب سے نکال کر حقیقی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ میاں شہباز شریف صاحب جب اتحادی حکومت پی ڈی ایم (PDM) کے وزیراعظم تھے تو تب بھی آئی ایم ایف کی قسط اتارنے کے لیئے چین اور خلیجی ریاستوں سے ایک ایک، دو دو ارب ڈالر کی امداد لی تھی۔ اس دفعہ بھی انہوں نے اپنے معاشی پروگرام کو تقویت دینے کیلئے بغیر کوئی دیر کیئے سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور چین کے دورے کئے، جس سے آنے والے دنوں میں ملک میں بڑی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوئی، کاروباری شعبے کو از سر نو حوصلہ ملا، مہنگائی میں کمی آئی اور شرح سود بھی 22 سے 20 فیصد پر آ گئی۔ یہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جزوقتی کارکردگی قابل اطمینان ہے مگر اس سے ملک معاشی طور پر خود مختار ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہمیشہ کے لیئے کشکول توڑ سکتا ہے کیونکہ حکومت "اشرافیہ” یعنی "مراعات یافتہ طبقہ” جس میں خود حکومت بھی شامل ہے پر ہاتھ ڈالنے کے لیئے تیار نہیں ہے۔
پاکستان کے 10ویں وزیراعظم محمد خان جونیجو جو صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں سنہ 1985ء سے 1988ء تک وزیراعظم رہے تھے انہوں نے وفاقی وزراء اور وفاقی بیوروکریسی کے سیکٹریوں سے مہنگی غیر ملکی گاڑیاں واپس لے کر انہیں پاکستان کی تیار کردہ سستی سوزوکی کاریں استعمال کرنے پر مجبور کیا تھا۔ لیکن 29 مئی سنہ 1988ء کو صدر موصوف ضیاءالحق نے انہیں بھی وزارت عظمی سے فارغ کر دیا تھا۔ میاں شہباز شریف نے حکومتی محکموں میں کفائت شعاری کی ہدایت تو کی ہے مگر محمد خان جونیجو کی طرز پر معاشی بچت کا کوئی پروگرام متعارف نہیں کروایا۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم، وفاقی وزراء، وفاقی بیوروکریسی اور پنجاب کی وزیراعلٰی مریم نواز اور ان کی کابینہ اور خود ان کے پروٹوکول، ہیلی کاپٹروں اور قیمتی ترین گاڑیوں کے جتھوں میں ذرا برابر بھی کمی نہیں آئی ہے!!
یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف کے مقابلے میں میاں شہباز شریف صاحب چاک و چوبند اور مستعد وزیراعظم ہیں۔ وہ اپنی اکثر تقاریر میں "شبابہ روز محنت” کا زکر کرتے آئے ہیں اور ملک کو معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا بھی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن زمینی اعدادوشمار کے مطابق یہ ایسا ہی دعوی ہے جو ماضی میں کئی بار ن لیگ کی قیادت "کشکول” توڑنے کا کرتی آئی ہے۔ یہ ایک قسم کی تقریری کرشمہ سازی یے جو عوام کے زہنوں میں راسخ کروائی جاتی ہے تاکہ بغاوت نہ ہو یا سیاسی ووٹ بنک نہ ٹوٹے۔ حقیقت میں معیشت میں بہتری اسی وقت آئے گی جب خودانحصاری اور بچت پر مبنی پائیدار پالیسیوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ یہ ایک خواب ہے۔ جب اشرافیہ کو بچت کی سکیمیں بنا کر اسے اس میں شامل کیا جائے گا تو یہ خواب تبھی پورا ہو گا۔ ورنہ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ دعوی ایک دعوی ہی رہے گا۔ خدا کرے اس دفعہ محترم وزیراعظم شہباز شریف اپنا وعدہ وفا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ایسا نہ ہوا تو قرضوں پر سود میں جکڑی معیشت اسی طرح خطرے میں رہے گی اور ایسے دعووں کے برعکس پاکستان آئی ایم ایف (IMF) کے چَن٘گُل سے کبھی آزاد نہیں ہو گا۔
Title Image by Wikipedia
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔