پرائمری سکول ملہووالہ بلڈنگ اینڈ فرنیچر

 پرائمری سکول  ملہووالہ بلڈنگ اینڈ فرنیچر

  1961 میں سکول لاہنی مسجد کے پاس  تھا۔ اس کے دو  حصے تھے ۔ اتیا / اُتلا  سکول   اور تھلیا سکول۔  موجودہ لاہنی مسجد کے ہال کا شمالی نصف حصہ اتیا سکول تھا اس میں ایک کمرہ ،برآمدہ اور صحن تھا۔ کمرے کا ایک دروازہ مسجد کے وضو خانہ میں کھلتا تھا۔ پانی پینے کے لئے مسجد کے گھڑے اور ٹائم دیکھنے کے لئے مسجد کا گھڑیال استعمال ہوتا تھا۔ شروع میں سارے سکول کی تعداد پندرہ بیس طلباء اور ایک استاد تھا۔ اس وقت یہی سارا سکول تھا ۔ تعداد بڑھنے پر تھلیا سکول کا اضافہ ہوا۔ جنازہ گاہ کے مشرق میں ایک کمرہ اور وسیع صحن تھا۔ یہ سیکشن ماسٹر عبدالقادر صاحب کے پاس تھا۔اتیا سکول منشی کرم الٰہی صاحب کے پاس تھا اس میں چوتھی اور پانچویں جماعتیں تھیں۔ تھلے سکول کے صحن میں 1970میں پیپلز پارٹی کا جلسہ ہوا تھا ۔میرے علم کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کا یہ پہلا جلسہ تھا۔
 سکول کی کوئی چار دیواری نہیں تھی۔ اُتلے سکول کی بلندی سے نلی والا کھوہ اور اس کے فارم ہاؤس پر اپنی فیملی کرم الٰہی صاحب کی نظروں میں رہتی تھی۔ شام کو اُتلے سکول کا صحن آباد  ہوتا ۔اس میں کھڑے ہو کر بچہ لوگ مال مویشی کی گھر واپسی کا منظر دیکھتے تھے۔ ساتھ ساتھ ڈنگروں کی چال اور رنگ پر  رننگ کمینٹری   جاری رہتی ۔عجیب پر رونق منظر ہوتا تھا۔ اس کی طرف قرآن مجید میں ارشاد ہے
وَ لَكُمْ فِیْهَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ ۔۔۔۔ اور اُن (جانوروں) میں تمہارے لیے خوبصورتی ہے جب تم اُنہیں گھروں میں لاتے ہو۔
 سردیوں کی چھٹیوں  میں  ایک دفعہ اُتلے سکول کے برامدے میں ایک پٹھان خانہ بدوش فیملی ( کوچی ،پاوندہ) ٹھہری تھی۔ ان کی بچیاں  پنج گیٹ کھیل رہی تھیں ۔ پٹھان خانہ بدوش اس کے بعد نظر نہیں آئے ۔

 پرائمری سکول ملہووالہ بلڈنگ اینڈ فرنیچر

  ڈکشنری کے مطابق  پٹ سن کا بنا ہوا کپڑا ٹاٹ کہلاتا ہے ۔اس سے  بوریاں   تھیلے  رسے وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں اور موٹا جھوٹا لباس بناتے ہیں۔ راقم نے یہ لباس نہیں دیکھا۔
  پٹ سن Jute مشرقی پاکستان کی خاص فصل تھی ہمارے علاقے کی  سنی(Sinni)پٹ سن کی چھوٹی بہن ہے ۔   مشرقی پاکستان میں آدم جی جیوٹ مل کے نام سے پٹ سن کا کارخانہ تھا۔ پٹ سن کے ریشوں Fibers سے  ایک موٹا دری نما  کپڑا (ٹاٹ) تیار ہوتا تھا۔ اس  کو زمین پر بچھا کر اس پر  طلباء بیٹھتے تھے۔اس کے علاوہ اس کے تھیلے / بیگ/ بوریاں  بنا کراناج وغیرہ بھی محفوظ کرتے ہیں۔  ٹاٹ کی سٹینڈرڈ بوری  کا وزن سو کلو گرام  ہوتا تھا۔ سیمنٹ کے بیگ بھی پٹ سن کے ہوتے تھے۔

  ہم نےساتویں جماعت  تک  انھی ٹاٹوں  پر بیٹھ کر تختیاں لکھی ہیں، سبق یاد کیے ہیں اورکان پکڑے ہیں۔  ٹاٹ کے ایک پیس کی چوڑائی دو فٹ اور لمبائی بارہ فٹ ہوتی تھی ۔
  1966 کی بات ہے ماسٹر صاحب نے فرمایا کہ گنڈاکس بس کے اڈے سے ٹاٹ لانے ہیں۔ بچہ لوگ ٹاٹ اٹھا کر لے آئے۔  بالکل نئے ۔فریش فرام اُوون ٹاٹ تھے ۔ان سے  خوشبو Aroma آرہی تھی۔۔بلکہ مجھے تو تصور میں اب بھی وہ خوشبو آرہی ہے ۔

 ماسٹر صاحبان کرسی پر براجمان ہوتے تھے۔ سبق پڑھانے کے لئے سٹینڈ والا بلیک بورڈ تھا۔ ایک دفعہ اُتلے سکول کے برامدے میں سیمنٹ سے دیوار پر  وال بورڈ  بنایا گیا۔ کچھ دن کے بعد کسی آجڑی  نے اپنی ڈانگ سے اس بورڈ کی کوالٹی چیک کی ، اس کے بعد تاریخ خاموش ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اداس موسموں کا پر امید شخص

بدھ اپریل 26 , 2023
نکہ کلاں میں عید الفطر کے موقع پہ اعوان فارم ھاؤس میں ایک علاقائی موسیقی کا پروگرام منعقد کیا گیا
اداس موسموں کا پر امید شخص

مزید دلچسپ تحریریں