پرائمری سکول ملہووالہ ! بنیادی جمہوریت
بی ڈی ممبران کے لیےبلدیاتی انتخابات 1964 میں ہوئے ۔ نیاز علی صاحب رمتال (کبوتر) اور بابو عتیق صاحب وکیل (کرسی) کا مقابلہ تھا۔ وارڈ میں ملہو والا، ڈھوک گنجا اور باورہ شامل تھے۔ بی ڈی کا مطلب بیسیک ڈیمو کریسی (بنیادی جمہوریت) ہے۔ پولنگ سٹیشن بوائز سکول لاہنی مسجد تھا۔ قاضی خاندان نے نیاز علی کا ساتھ دیا۔ چاچا عمر بخش ان کا پولنگ ایجنٹ تھا۔
ڈھوک گنجا اور باورہ کی لیڈی ووٹرز کے لیے اونٹ کی پک اینڈ ڈراپ سروس فراہم کی گئی ۔ ممبران کی طرف سے گلہ سننے میں آیا کہ پک اینڈ ڈراپ سروس ہماری استعمال کی اور ووٹ دوسری پارٹی کو ڈالے۔ بابو عتیق یہ الیکشن جیت گئے۔
اس الیکشن سے پہلے گاؤں میں ایک ہی حجام تھا۔ الیکشن کے نتیجے میں گاؤں تقسیم ہوگیا۔ گاؤں کی ایک پارٹی نے ایک حجام درآمد (import)کیا۔ مہر بخش کچھ عرصہ ملہو والا میں حجام کے طور پر رہے۔ وہ حاجی نیاز علی کے کہنے پر یہاں آئے تھے۔ غالباً یہ انتخابی کشیدگی کا نتیجہ تھا۔
نیاز علی(Goodness Personified)مجسم نیکی تھے۔ ان کا تعلق پیر مکھڈ گروپ سے تھا۔ وہ ہمیشہ بے داغ سفید پگڑی، قمیص اور تہبند میں ملبوس رہتے تھے۔ ان کی باتیں ہمیشہ حکمت سے بھری ہوتی تھی اور انہیں سننا سعادت تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو جامع مسجد میں پہلے پہلے اعتکاف بیٹھے تھے۔ اور لاعلمی کی وجہ سے بالکل خاموش رہنا ( چپ کا روزہ)اعتکاف کی شرط سمجھتے تھے ۔میں نیاز علی اور صادق ترڈ صاحبان سے بہت متاثر امپریس ہوں۔ اپنی سماجی حیثیت کے باوجود وہ شریف النفس تھے۔
جہاں تک عتیق صاحب کا تعلق ہے مجھے ان سے کوئی بات چیت یاد نہیں۔ وہ ڈھوک کھبہ راولپنڈی میں رہتے تھے۔ ان کی بیگم … ماسی بدران ہمیشہ میرے ساتھ شفقت سے پیش آتی تھیں.ماسی بدران سے آخری ملاقات ریلوے ہاسپٹل راول پنڈی میں 2011میں ہوئی ۔ان کے کوئی عزیز وہاں داخل تھے ۔
اللہ پاک ان تمام مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین
1971 کے عام انتخابات کا پولنگ سٹیشن گنڈاکس میں تھا۔ 1965 میں امریکی امداد کے ساتھ ملیریا کے خاتمے کا پروگرام تھا۔ صحت کے کارکنان طلباء کے خون کے نمونے سے ملیریا سلائیڈیں بنانے کے لیے اسکول آتے تھے۔ انگلی کو چبھو کر خون نکالا جاتا تھا۔جیسے اب بلڈ شوگر لیول چیک کیا جاتا ہے۔
منشی کرم الٰہی صاحب نے پانچویں کلاس میں والد صاحب کے نام خط لکھوایا تھا ۔اس کا پہلا جملہ یہ تھا۔ بخدمت جناب والد صاحب جی دام اقبالہ ہوں ۔ اب تک دام اقبالہ کا مطلب واضح نہیں ہوا ۔
سکول کی ایک بےضرر سی شرارت یاد آ رہی ہے ۔ کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا موقعہ دیکھ کر کسی دوست کے سر پر آہستہ سے رکھ دیتے تھے ۔تھوڑی دیر بعد باقی کلاس کو اس کی طرف متوجہ کرتے اور کہتے۔
کھوتے تے بھار ۔۔۔۔۔تےکھوتے آں پتہ ای نئیں
خالہ زاد طارق نے 1970میں پرائمری پاس کی ۔ اس کے ساتھ سرٹیفکیٹ لینے ماسٹر عبدالقادر صاحب کے پاس حاضر ہوئے ۔ انہوں نے فرمایا ۔پرائمری پاس کرنے کی خوشی میں ایک مرغی یا اس کی قیمت ( پانچ روپے) استاد محترم کی خدمت میں ہدیہ کرنے کا رواج ہے۔ اس ضروری کارروائی کے بعد سرٹیفکیٹ جاری کر دیا گیا ۔
جب مڈل سکول پہنچے تو ایگل پین سے دوستی شروع ہوئی ۔اس میں سیاہی بھرنا ، نب تبدیل کرنا ۔،مرمت کرانا معمول بن گیا ۔پین بالکل خراب ہونے پر اس کی ٹوپی اتار لی جاتی ۔ جیب کے ساتھ ایک عدد ٹھیک پین اور اس کے ساتھ دو تین خالی ٹوپیاں لگا کر سُکی ٹوہر بناتے تھے ۔کچھ لوگ ڈالر پین استعمال کرتے تھے۔ چین کے
ونگ سنگ ـ(Wing Sung) پین تھوڑے مہنگے تھے ۔
انک کی شیشی کے علاوہ لال اور نیلی انک کی گولیاں بھی ملتی تھیں ۔ان کو گھر پر شیشی میں پانی مکس کر کے سستی سیاہی تیار ہو جاتی تھی ۔ ایمرجنسی میں ایک دوسرے کے پین سے سیاہی بھرنے کی سہولت عام تھی ۔ لیکن یہ تھوڑا سا ٹیکنیکل کام ہوتا تھا۔
۔
نب ہولڈر ( Dip Pen )دور سے دیکھا تھا ۔اس کو کبھی استعمال کرنے کی نوبت نہیں آئی ۔ ہولڈر کو قلم کی طرح انک میں ڈبو کر لکھا جاتا تھا ۔ خوش خط اردو لکھنے کے لیے ’زیڈ‘ کی موٹی نب اور اچھی انگریزی لکھنے کے لیے ’جی‘ کی پتلی نب استعمال کرتےتھے۔
نیلو انک کی اشتہاری مہم میں سکول کی نوٹ بکس پر نظمیں لکھی ہوئی ہوتی تھیں ۔ان کے شاعر تائب رضوی چھوئی ایسٹ اٹک کے تھے ۔ تائب رضوی صاحب کا رنگ ملاحظہ فرمائیں
ذرا ہولی ہولی ٹُر کڑئیے
تیرا جیوے کیمبل پور کڑئیے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔