اردو ترویج کا صدارتی ایوارڈ

اردو ترویج کا صدارتی ایوارڈ

Dubai Naama

سفر وسیلہ ظفر ہے ایک خوبصورت اور بامعنی کہاوت ہے۔ یہ کہاوت تو سنی تھی مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سے استفادہ کرنے کے لیئے کتنے کلومیٹر کا سفر طے کرنا ضروری ہے۔ سرمد خان کی معیت میں چند روز پہلے کم و بیش پانچ سو چھہتر کلومیٹر کا یادگار ترین سفر کیا۔ اس طویل سفر کا آدھا حصہ دو سو اٹھاسی کلومیٹر بنتا ہے۔ شیخ زید سٹی جاتے یا واپس آتے ہوئے ہم کسی جگہ نہیں رکے اور یوں دونوں بار ہم نے یہ سفر محاورتا ایک ہی سانس میں طے کیا۔

دبئی سے شیخ زید سٹی کے ایک طرف کا فاصلہ دو سو اٹھاسی کلومیٹر ہے جس کے درمیان دبئی سے باہر اور زید سٹی سے پہلے تک صرف دو پیٹرول پمپس ہیں۔ ایک پٹرول پمپ ابوظہبی کے شہر شہامہ کے دائیں طرف اور دوسرا جاتے ہوئے الدافرا سے پہلے بائیں جانب یے۔ یہ طویل سفر ہم نے زید سٹی کے الدافرا پارک میں منعقدہ کتاب میلہ دیکھنے کے لیئے کیا۔ اس سے پہلے ایک بار مجھے شیخ زید سٹی جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ جب ہم نے شہامہ پٹرول سٹیشن کراس کیا تو مجھے یاد آیا کہ اتنے طویل سفر کے راستے میں تو کوئی پٹرول پمپ ہی نہیں ہے۔ میں نے گھبرا کر یہ بات سرمد خان کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ حوصلہ رکھیں گاڑی کا ٹینک بھرا ہوا ہے۔ اس طویل سفر پر آتے جاتے ڈرائیورز یاد رکھیں کہ وہ یہ سفر کرتے وقت گاڑی کی ٹینکی کو فل کروا لیا کریں۔ ابوظہبی کے بعد اور زید سٹی سے پہلے پینتالیس کلومیٹر کے ٹکڑے میں سپیڈ لمٹ ایک 160 کلومیٹر تک کی ہے۔ جب ہماری گاڑی اس رفتار پر پہنچی تو جہاں ہمیں اپنا اور گاڑی کا وزن بہت کم محسوس ہوا وہاں ہمیں 181 کلومیٹر کی رفتار سے ریکارڈ گیند کروانے والے کرکٹ کے بولر شعیب اختر بھی یاد آئے۔

کہا جاتا ہے کہ خلا میں رہنے والوں کی عمر بڑھ جاتی ہے اور روشنی کی رفتار سے چلنے والے اجسام کے لیئے وقت تھم جاتا ہے۔ سفر وسیلہ ظفر کے اور بھی بہت زیادہ فوائد ہونگے، البتہ حصول علم کے لیئے سفر کرنا سب سے زیادہ باعث برکت ہے۔ ایک حدیث شریف ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ عہد نبوی ﷺ کے وقت چین کا علاقہ مکہ اور مدینہ سے ایک تو بہت دور تھا اور تب تک اسلام وہاں پہنچا نہیں تھا۔ اس حدیث شریف ﷺ کے مطابق چین کے سفر اور علم کے حصول سے ایک مراد دنیاوی تعلیم و تربیت بھی ہے۔ جتنا سرمد خان صاحب کو علم اور کتابوں سے لگاو’ ہے اسے "جنون” کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ہم ڈیرا دبئی سے زید سٹی جانے کے لیئے شام کے ساڑھے تین بجے نکلے تھے اور کتاب میلہ میں داخل ہوئے تو رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ ہم میلہ میں جلدی پہنچنا چاہتے تھے۔ ہمارے زہن میں تھا کہ بک فیئر 9 بجے بند ہو جائے گا مگر بعد میں پتہ چلا کہ اس کا رات 12 بجے تک وقت ہے۔ داخلی دروازے سے چند قدموں پر دائیں طرف ایک ٹینٹ میں ریت پر عربی خواتین و حضرات کی ایک محفل جاری تھی۔ ہم جونہی آگے بڑھے تو ابراہیم محمد السلامتہ ہمیں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ محترم المقام متحدہ عرب امارات کے بک فیئرز اور ایونٹس کے انچارج ہیں۔ انہوں نے چھوٹتے ہی ہمیں اس محفل میں بیٹھنے اور شرکت کرنے کی دعوت دی۔ خواتین و حضرات عربی میں باری باری گفتگو کر رہے تھے۔ ہم دونوں عربی زبان سمجھنے اور بولنے میں اتنے اچھے نہیں ہیں۔ لیکن اتنا سمجھ رہے تھے کہ وہ علم اور کتابوں کی اہمیت پر مقالمہ کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد عربی کڑوا قہوا نوش کرنے کے بعد ہم صحافیوں کے ٹینٹ اور ایڈمنسٹریشن آفس گئے جہاں ابراہیم صاحب نے ہمیں چائے اور بسکٹس کھانے پر دوبارہ مجبور کیا۔

اردو ترویج کا صدارتی ایوارڈ

الدافرا کے کتاب میلہ میں لگ بھگ سو بک سٹال تھے۔ کوئی ایک بھی ایسا بک سٹال نہیں تھا کہ جہاں سرمد خان نے کھڑے ہو کر تصویر نہ بنائی ہو یا وہاں موجود عملہ سے علم کے فروغ اور کتابوں کی خرید و فروخت کے بارے میں معلومات نہ لی ہوں۔ ایک دو جگہ پر لوکل گیتوں اور رقص کا پروگرام بھی کھڑے کھڑے دیکھا۔ ایک جگہ پر ورائٹی شو بھی ہو رہا تھا۔ ہم نے اچانک اپنے سامنے بارہ بارہ فٹ کے تین آدمی آتے دیکھے جن کے ساتھ تصویریں بنائیں، جس کے بعد ابراہیم صاحب سے دوبارہ ٹاکرا ہو گیا۔ ان کے ساتھ ان کا عملہ بھی تھا جن میں تین چار مرد و خواتین نے بتایا کہ انہوں نے سرمد خان کو جرمنی، سعودی عرب اور قطر کے کتاب میلوں میں بھی دیکھا تھا۔ اسی دوران سرمد خان نے ابراہیم صاحب سے پوچھا کہ آپ پاکستان کے بک فیئرز میں کب اپنا نمائندہ بھیجیں گے تو انہوں نے اپنی سیکریٹری سے کہا کہ کمپیوٹر میں پاکستان کے کسی فیئر کا شیڈول ڈال دیں۔

سرمد خان اور احقر کتاب میلہ میں دو گھنٹے تک موجود رہے اور واپس نکلنے سے پہلے ہم نے کسی نزدیکی پاکستانی ریسٹورنٹ کی لوکیشن تلاش کی تو دس کلومیٹر پر "خیبر پختونخوا ریسٹورنٹ” کی لوکیشن ظاہر ہوئی۔ واپسی پر سرمد خان نے گاڑی دوبارہ تیزگام سڑک پر ڈال دی۔ وہ اگلے پانچ گھنٹے تک مسلسل گاڑی چلاتے رہے اور مجھے متحدہ عرب امارات میں اردو کے فروغ کے لیئے ان کی ان تھک جدوجہد یاد آتی رہی۔ ہم نے محض 2 گھنٹے اس بک فیئر میں شرکت کرنے کے لیئے آنے جانے کا 10 گھنٹے کا طویل اور خطرناک سفر کیا۔

سرمد خان نے ایک سال قبل اردو کتب کے فروغ کے لیئے شارجہ پبلشنگ سٹی میں "اردو بکس ورلڈ” کے نام سے کمپنی بنائی اور امسال انہوں نے "اردو ریسرچ بکس” کے نام سے اپنی جیب سے پیسے لگا کر مجھے کمپنی بنا کر دی۔ وہ ہر سال امارات بلانے کے لیئے مختلف صحافیوں کو سپانسر کرتے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی کتاب میلہ لگتا ہے وہ اردو کی ترویج کرنے کے لیئے اور وہاں سے مزید معلومات اکٹھی کرنے کے لیئے پہنچ جاتے ہیں۔ دبئی ریگا روڈ پر ان کے گھر جگہ جگہ کتابیں رکھی ہیں جیسے یہ گھر نہ ہو کوئی لائبریری ہو۔ انہوں نے اردو کی دس بارہ کتابیں بھی خریدنی ہوں تو وہ کراچی یا لاہور پہنچ جاتے ہیں۔

سرمد خان زندگی میں جتنا کما رہے ہیں وہ سارے کا سارا اردو ادب اور کتابوں کے فروغ پر لگا رہے ہیں۔ میں صبح چار بجے کچھ دیر آرام کرنے کے لیئے بستر پر لیٹ تو سوچ رہا تھا کہ سرمد خان کو اردو کتابوں سے اتنا عشق ہے کہ میرے بس میں ہو تو میں انہیں اردو ترویج کے "صدارتی ایوارڈ” سے نواز دوں۔ لیکن جس کا نام سرمد خان ہے وہ کسی ایوارڈ کے بھوکے ہیں اور نہ وہ اردو کی یہ خدمت اس لیئے کر رہے ہیں کہ انہیں اس کا کوئی صلہ دے گا۔

تحریر: جوسف علی

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) محمد محسن کی مرتب کردہ کتاب "مثنوی اسرار و رموز" کا تجزیاتی مطالعہ 

جمعہ دسمبر 13 , 2024
یہ کتاب علامہ اقبال کی فارسی مثنوی اسرار و رموز یعنی اسرار خودی اور رموز بے خودی کے سلیس اردو تراجم پر مبنی 498 صفحات کی
لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) محمد محسن کی مرتب کردہ کتاب "مثنوی اسرار و رموز” کا تجزیاتی مطالعہ 

مزید دلچسپ تحریریں