پولیو سے پاک پاکستان: مگر کیسے؟
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
پولیو ایک انتہائی مہلک اور انسانی جسم کو عمر بھر کے لیے معذور کرنے والا مرض ہے جس نے دہائیوں تک دنیا کے کئی ممالک میں معصوم بچوں کو متاثر کیا۔ یہ 1988 کی بات ہے کہ اس وقت پولیو دنیا کے 125 ممالک میں پایا جاتا تھا، لیکن عالمی کوششوں اور ویکسینیشن پروگرامز کے باعث آج یہ مرض صرف دو ممالک، افغانستان اور پاکستان تک محدود ہو گیا ہے۔ تاہم حالیہ اعداد و شمار اور رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ اس مرض کا مکمل خاتمہ اب بھی پاکستان اور افغانستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پولیو کے 92 تصدیق شدہ کیسز سامنے آئے ہیں جن میں 25 افغانستان اور 67 پاکستان میں ریکارڈ کیے گئے۔ پاکستان کے ضلع ٹانک میں ایک نیا کیس سامنے آنے کے بعد یہ تعداد 68 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان میں پولیو کا خطرہ دوبارہ بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں 1994 میں پولیو کے خاتمے کے لیے منظم مہمات شروع کی گئیں، جن کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ تاہم حالیہ برسوں میں چند عوامل نے اس مرض کے دوبارہ سر اٹھانے میں کردار ادا کیا ہے جن میں منفی پروپیگنڈہ اور سوشل میڈیا پر غلط معلومات کا پھیلاؤ شامل ہے پولیو ویکسین کے خلاف سازشی نظریات اور منفی سوچ نے ویکسینیشن مہمات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
ایک اور وجہ غذائی قلت اور صحت کی ناقص صورتحال بھی ہے۔ بچوں کی کمزور جسمانی حالت اور ناقص غذائیت وائرس کے پھیلاؤ کو بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔
تیسری بڑی وجہ صفائی ستھرائی کا فقدان اور آلودہ پانی کا استعمال بھی ہے۔ ناقص صفائی اور آلودہ پانی وائرس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت وائرس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے علاوہ دیگر افریقی ممالک جیسے کانگو، گنی، نائجیریا اور صومالیہ میں بھی پولیو کیسز رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ سعودی عرب نے ان ممالک سے آنے والے مسافروں کے لیے پولیو ویکسین سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا ہے جو اس مرض کے عالمی اثرات کو محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
پولیو کے مرض سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر سختی سے عمل کیا جائے:
سب سے پہلے منفی پروپیگنڈے کا سدباب کیا جائے۔ عوام میں آگاہی بڑھانے کے لیے مؤثر میڈیا مہمات چلائی جائیں اور پولیو ویکسین کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط معلومات کا خاتمہ کیا جائے۔
ویکسینیشن مہمات کی رسائی کو گلگت بلتستان اور چترال کے دور دراز پہاڑی علاقوں تک بھی پہنچایا جائے اور ٹیم کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ دور دراز اور تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں ویکسینیشن مہمات کو محفوظ اور قابل رسائی بنایا جائے۔
صفائی اور صحت کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کو صاف پانی کی فراہمی اور صفائی کے انتظامات کو یقینی بنانا ہوگا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی نقل و حرکت پر مؤثر کنٹرول اور ویکسینیشن کی تصدیق ضروری ہے۔
پولیو کے خاتمے کے لیے عالمی اداروں اور دیگر ممالک کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے۔
پاکستان مین پولیو کا خاتمہ ایک اہم انسانی مسئلہ ہے جس کے لیے مربوط اور منظم اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ 2025 تک اس مرض کے مکمل خاتمے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے حکومت، عالمی ادارے اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ پولیو کے خلاف کامیابی صرف ایک صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی انسانی نسل کامیابی ہوگی۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |