کتاب سجدہ کی شاعری اور مقبول ذکی مقبول
تحریر : دلبر حسین مولائی ، ڈیرہ غازی خان
مقبول ذکی مقبول منکیرہ ضلع بھکر کے نامور شاعر ہیں ۔ محکمہ صحت میں ملازم ہیں ۔ محمد و آل محمد علیہ السلام سے گہری عقیدت رکھتے ہیں ۔ مومن بندے ہیں ۔ پچھلے دنوں ان کی کتاب”سجدہ”شائع ہوئی ۔ 21 مئی 2017ء کو اس کتاب کی اشاعت اول ہے ۔ اس کے 172 صفحے ہیں ۔ ساری کتاب دینی شاعری پر مشتمل ہے ۔ جس میں حمدیہ کلام ، نعتیہ کلام ، میلاد مبارک ، سلام یا حسین علیہ السلام ، منقبت اور حسینی بند شامل ہیں ۔ مختلف اصناف اور بحور استعمال کی گئی ہیں ۔ یعنی منقبت ؛سلام (غزل طرز پر) قطعہ ، مسدس اور آزاد ہئیت میں شاعری موجود ہے ۔ غیر منقوط نظمیں بھی شامل ہیں ۔ شاعری کی مذہبی روایت ساری کی ساری موجود ہے ۔ قصائد اور فضائل زیادہ لکھے گئے ہیں ۔ مصائب سے بھرے حسینی بند بھی موجود ہیں ۔ جگہ جگہ پر اسلامی تعلیمات کے حوالے موجود ہیں ۔ اسلامی شخصیات میں سے حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم ، حضرت عمران/ابوطالب علیہ السلام ، امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام ، بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ، بی بی زینب سلام اللہ علیہا ، حضرت امام حسن علیہ السلام ، حضرت امام حسین علیہ السلام ، حضرت امام سجاد علیہ السلام ، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ، حضرت امام علی رضا علیہ السلام ، حضرت امام مہدی آخر الزمان علیہ السلام اور حضرت سلیمان فارسی رضی الله عنہ جیسی ہستیوں پر نظمیں یا اشعار موجود ہیں ۔ جگہ جگہ پر اہل بیت علیہ السّلام سے عقیدت و نسبت بیان کی گئی ہے ۔ آل محمد ﷺ سے مودت ہی دین و آخرت کی کامیابی کی کنجی ہے ۔ پوری کتاب میں جملہ عظیم ہستیوں کے پیغام کا خلاصہ "سجدہ”بنتا ہے ۔ جو اللہ پاک کی بارگاہ میں عاجزی و انکساری کی علامت ہے۔ان پاک شخصیات کی تعلیمات یہی ہے کہ اے انسان اللّٰہ کے سامنے جھک جا ، پھر کامیابی ہی کامیابی ہے لہٰذا جابجا نماز کی اہمیت اور اطاعت محمد و آل محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے سے اشعار ، امرباالمعروف و نہی عن المنکر کا درس دے رہے ہیں ۔ یہ کتاب "سجدہ” مقبول ذکی مقبول کے لئے آخرت کا تحفہ و ارمغان ہے ۔ جس نے ثبوت کے طور پر تحریری لکھا ہے کہ ایک زمانہ ان کے ایمان کا گواہ رہے کہ یہ شخص حضرت عمران علیہ السلام کو مومن ، محمد مصطفیٰ ﷺ کو آخری نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم ، امیر المومنین مولا علی علیہ السلام کو پہلا امام ، چودہ معصومین علیہ السلام کو اپنا رہبر مانتا ہے ۔ اس نے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کر کے ان مقدس ہستیوں سے محبت کا بھر پور اظہار کیا ہے ۔ یہ کتاب ان کے پاکیزہ باطن کی گواہی ہے کہ یہ شخص اپنے آپ کو ان ہستیوں سے علیحدہ فکر و خیال کے تصور کو سوچ ہی نہیں سکتا۔ بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی ان کی حمدوں ، میں موجود ہے ۔ نعتوں میں عشقِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی کئی جھلکیاں نظر آرہی ہیں ۔ منقبتیں ، قصائد ، کربلائی پیغامات ، کوفہ و شام کے مصائب کا ذکر ، اس بات کی علامت ہے کہ یہ پیغام ٫٫ کربلائی و علوی ٫٫ پیغام کا تسلسل ہے ۔ وہ انسان کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا جو قرآن ، حدیث اور نہج البلاغہ کی تعلیم سے دور ہو ۔۔۔ یہ کتاب”سجدہ” قاری کو متوجہ کرتی ہے کہ اے پریشانیوں میں گھرا انسان پھر قرآن و حدیث اور نہج البلاغہ کی طرف لوٹ آ ۔۔۔۔ تاکہ فرشتے تجھ پہ سائبان کریں ، لواالحمد کا سایہ تجھے نصیب ہو ، جام کوثر ، والا جنتی شربت پینے کو ملے ۔ میں مقبول ذکی مقبول کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کے ان کے دل و دماغ کے پاکیزہ خیالوں کو قلم جیسا گواہ مل گیا ہے ۔ جس نے ” سجدہ ” جیسی عظیم صفت کی گواہی زمانے کے سامنے پیش کی ہے ۔۔۔ ۔
مختلف عنوانوں کے حوالے سے منتخب اشعار نقل کیئے جاتے ہیں ۔
حمد مسلمان شعراء ہمیشہ لکھتے آئے ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ سے لو لگانے کا یہ شاندار قلمی رابطہ ہے ۔۔۔ جہاں دیکھو جب دیکھو ، ہر مقام پر ہر وقت اللّٰہ تعالیٰ کی کاری گری اور قدرت کاملہ سامنے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے ۔ ذکی نے منظر کھینچا ہے ۔
نظارہ ہر نظر کوں ذات تیڈی دا نظر دا ہے
تہوں سورج وی مدحت آپ دی کرکے ابھر دا ہے
رکھی لذت ہیوی اینجھیں انہاں پھلاں دے پانی وچ
جو مجنوں بن کے پھلاں تے ودا بھنورا اتر دا ہے
پتھر ریت سمندر صحرا کیڈے سوہنے ڈسدے ہن
اچے اچے روہاں کوں وی برف دے نال لکایا ہے
سن دا ہر ہک گالھ ہے مولا
شہ رگ دے جو نال ہے مولا
تیڈی رحمت دے وچ جکڑا
ذکی دا ہر وال ہے مولا
خدا کے ذکر کے بعد ذکر حبیب خدا ﷺ نہ ہو تو ایسی زبان اور قلم پر حیف ہے ۔ پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر و نعت سے ایمان تازہ ہوتا ہے ۔ دل سے توحید کی کرنیں پھوٹتی ہیں ۔ محمد و آل محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے مودت پختہ ہوتی ہے ۔ روز اول سے روز آخر بلکہ ہمیشہ ہمیشہ یا نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم یا نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کا ورد رہنا ہے ۔ آپ پر درود و سلام پڑھا جاتا رہے گا ۔ جو بندہ مدینے سے بیگانہ ہے ۔ اس کی زندگی ویرانوں اور بیگانوں کی زندگی ہوگی ۔
بن مدینے دے میڈی اے زندگی ویران ہے
رب دی سونہہ دنیا تے میکوں بس مدینہ بھاندا ہے
روز اول توں لا روز محشر تائیں
یا نبی یا نبی ذکر کر دا رہواں
علیؑ رکوع ہے والا طاہرہ کسا ہے والی
گوہر دہر دے اصلی احمد دی آل اعلیٰ
کشتی نوح دی ڈتی ہے مثال اے نبی
آل احمد دا سچا سفینہ ڈسے
کونین دا مالک ہے سردار مدینے دا
انسان دا وارث ہے سرکار مدینے دا
مقبول دعا خالق منظور کریسی چا
چم شہر گھناں سارا ہک وار مدینے دا
ڈوجہاناں دا شاہ آیا مکے دے وچ
ہر بشر کوں سحر اوہا وکھری لگی
مقبول ذکی مقبول ایک عرصے سے مصروف ذکر محمد و آل محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم میں ہے ۔ بھکر اور کچھی شروع سے ہی ایسے شاعر اور ذاکر پیدا کرتی رہی ہے۔ جنہوں نے کربلائی پیغام پورے برصغیر میں پہنچایا ہے ۔ یہ سلسلہ تھما نہیں ہے ۔ جہاں اور قلم کار محو مدحت ہیں ۔ وہیں مقبول ذکی مقبول بھی اپنا حصہ شامل کررہا ہے ۔ ان کے قلم میں روانی بھی ہے ، عشق بھی اور عقیدت بھی ، حضرت علی اکبر علیہ السلام کی ولادت کے موقعے کا بند دیکھئے۔
پاک حسینؑ دا بچڑا جانی
نانے پاک دی پاک نشانی
اکبر اکبر یوسف ثانی
یثرب چمکا گھڑی سہانی
بخت حسینؑ دا عرش توں آیا
در ، دارین دا عرش توں آیا
مقبول ذکی مقبول ، دل کا تونگر ہے ۔ اس کے عقیدے کے لنگر سے زمانہ سیر ہوتا رہے گا ۔ ان کی سوچوں کی زکات ہمیشہ ہمیشہ بٹتی رہے گا مجھے نہیں معلوم ظاہری دنیا میں مقبول ذکی مقبول کتنا دولت مند ہے۔ مگر”حسینت” کی دولت سے مالامال ہے ۔ ان کی فکر کے کئی ٹرالے شاہراہِ مستقیم پر رواں دواں ہیں ۔ جن پہ واضح لکھا ہے کہ یہ کاروان امام العصر ہے۔ جن کے ممبر کی پہلی نشانی”سجدہ” ہے”سجدہ” ایک استعارہ ہے کہ یہ شخص تین اطاعتوں کا قائل ہے یعنی یعنی اللّٰہ کی اطاعت ، رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت ، یہ کتاب سجدہ ان اطاعتوں کی پیام بر ہے ۔ اس کے صفحات ملکوتی ” ذاکرین ” کے ذکر سے مزین ہیں ۔ اسی طرح ایک ذاکر حقیقی امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر بھر پور اظہار عقیدت کرتے ہیں کہ یہ رسول زادہ شریعت محمدی کو ” صادق ” بن کر بیان کرے گا ۔
جہان سارے ڈتی مبارک ہے آیا جگ تے رسول زادہ
تے جنس اٹھاراں ہزار آ کھا ایندا تے اللّٰہ دا ہک ارادہ
ہے جانشین امام باقر تے رتبہ مولا دا بہوں زیادہ
ہے نور چوڈاں طبق تے ایندا بدن تے بشری تاں ہے لبادہ
رسول اپنی حیات اندر لقب وی صادق ڈسا ٹرا ہے
اول توں لا کے اخیر تونڑیں خلیفے بارہ بنا ٹرا ہے
ایک مومن شاعر کی روایت رہی ہے کہ مدحت و فضائل کے بعد ذکر کربلا ضرور کرتا ہے ” ذکر کربلا ” در اصل ذکر اسلام ہے ۔ عاشور کے دن نے "سجدے” کی لاج رکھی ۔ ریت کے ٹیلوں کا مرکز کربلا ، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے "کربلا معلیٰ” بن گیا ، مکہ و مدینہ و نجف کے بعد کربلا ہی تو ہے ۔ جس نے ان مراکز کی لاج رکھی ہے ۔
عاشور دا ڈیہاڑا پیشیں نماز ویلا
ساری خدائی اتے چھاون لگا ہے سجدہ
اے ریت جنگل دی خلد بن گئی جو خون تیڈا آ وچ رلا ہے
اے خاک افضل ہے سجدہ گاہ ہے او پاک صحرا سلام ڈیندائے
درجہ حسین تیڈا کہیں کوں نصیب کوئی نئیں
بخشی وڈی ہے عزت تیکوں خدا نے کربل
مقبول ذکی مقبول کا نہ صرف اعتراف ہے کہ بلکہ حقیقت بیانی ہے کہ آدم سے آخری حجت تک ، سجدہ یعنی اطاعت رب کا مشترکہ پیغام یہ انبیاء علیہ السلام کرتے آئے ہیں مگر مولا حسین علیہ السلام کے "کربلائی سجدے” نے سب سجدوں کو عزت اور حفاظت بخشی ہے ۔
ہادی منسی تیکوں عالم
تیڈی ذات دا نعرہ لیسی
اہل بیتؑ دے سارے ڈکھڑے
بارہواں ہادی آن سنڑیسی
جے تائیں بت اچ ساہ ہن مولا
اے مقبول سلام بھجیسی
اوکھا سجدہ کربل تیڈا سجداں دی او شان بنا گئے
جگ دے سجدے بچ گئے باقی مولا پاک حسین ہیں توں
کفر دا بہوں اندھارا ہا
چا شمع حق دی بالی تئیں
مقبول ذکی مقبول ایک ایسا ملنگ شاعر ہے جو سیرتِ سلیمان فارسی ( رض) پر چلتے ہوئے اہل بیت علیہ السّلام کی ثنا خوانی کر رہا ہے ۔ یہ ثنا خوانی یوم حشر ان کے کام آئےگی۔
پڑھا رب دا ہے میں قرآں ثنا آل محمدؐ دی
آکھے سورہ آل عمران ثنا آل محمدؐ دی
گھرانہ ہے ایہو ذیشاں ثنا آل محمدؐ دی
سمجھداں میں جند تے جاں ثنا آل محمدؐ دی
اے واجب ہے مودت ہے صلہ ایند خدا ڈیسی
جہاں دنیا دی کوئی شئے وی حشر کوں نہ وفا ڈیسی
مقبول ذکی مقبول نے وقت کے ضیاع کے لئے اشعار نہیں لکھے بلکہ اپنی عقیدت کی روشنی سے قلم کو تر کرکے لکھے ہیں ۔ رات دن اسی ذکر میں مستغرق رہتا ہے ، سوچتا ہے ، سمجھتا ہے اور پھر مدحت اہل بیت علیہ السّلام میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ ان کی کتاب "سجدہ ” چاہت و مودت سے لکھی گئی ہے ، ان کا ایمان ہے کہ چودہ معصوم ہی حاکم کی طرف سے حکیم حاذق ہیں ۔ ان کا نسخہ شفا ہی شفا ہے ۔
میڈی کتاب سجدہ ذکر حسینؑ مولا
چاہت دے نال لکھیم بی بی کرو قبول
میں تاں راتیں ڈیہناں کرداں تیڈی ثناء
پڑھداں ہاں نت قرآں وچ ہے تیڈی ولا
چوڈاں دا بس نپ گھن دامن
توں مقبول جو تھی ونج حاذق
علماء کہتے ہیں کہ ماضی میں لوگوں نے ” غدیر ” کو بھلایا ۔جس سے حقیقت کا سفر کچھ عرصہ کے لئے بھول بھلیوں میں گم ہو گیا "غدیر” کی تازگی کے لئے جنگ صفین اور جنگ کربلا لڑنا پڑیں ۔ قربانی دینا پڑی ۔ اگر غدیر کا پیغام آخر ، لوگ نہ بھلاتے تو قیامت تک ” شیطانیت” اوندھے منہ کراہتی رہتی ۔ لہٰذا دور حاضر میں”غدیر” کی بازیابی ضروری ہے لہٰذا علماء ذاکرین اور شعراء اس یوم کو نہ صرف خوشی کے طور پر لیتے ہیں بلکہ پیغام حق کا دن ہے ۔
حق کوں تاں بس حق ڈتا رب سئیں غدیر تے
جم گئی نظر فقط چہرہء امیر تے
فلک سلام آ کیتا جناب دی توقیر تے
جان وچ آجان گئی قرآن دی تفسیر تے
راہبر تے رہنما جن و بشر جہان دا
ڈکھا کے ہتھ علیؑ دا تے حکم ڈسا قرآن دا
مقبول ذکی مقبول نے شاعری کے فن کی طرف بھی توجہ دی ہے ۔ ان کے سلام ، مسدس اور نظمیں اپنی اپنی جگہ پر اہم ہیں مگر ان حسینی بندوں پر پکڑ بڑی مضبوط اور مربوط ہے ۔ گو کہ انہوں نے بہت کم بند لکھے ہیں مگر جو بھی ہیں۔ وہ مجھے ان کے کلام کا حاصل کلام محسوس ہوتے ہیں ۔
نماز عبادت فرض جو ہے شبیرؑ نہ فرض بھلایا
جنک روک ڈتی وچ کربل دے جڈاں وقت نماز دا آیا
نماز معراج ہے مومن دی تتی ریت کوں ڈیکھ ڈسایا
مقبول نماز دے سجدے وچ سر پاک حسینؑ کٹایا
سرائیکی بندوں یعنی ڈوہڑوں نے کربلائی پیغام کی تشہیر میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ پوری تاریخ حسنیت ان بندوں سے بھری پڑی ہے ۔ مومنوں کو چند بند سننے سے پورے سانحات یاد آجاتے ہیں ۔ وہ روتے ہیں ، پرسہ دیتے ہیں ، دشمنانِ آل محمّد پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ مقبول ذکی مقبول نے اس کتاب میں اپنے نوحے شامل نہیں کیئے ۔ زیادہ تر عقیدت و فضائل بیان کیئے ہیں مگر مصائب کے جو بند لکھے ہیں ۔ ان سے کوفہ و شام کے چوک اور بازار ہر زوار کے سامنے آجاتے ہیں ۔۔۔۔
تطہیر دے پردہ دار آئے جڈاں شام بھرے بازار دے وچ
کونین دی ملکہ سر ننگے ہر چوک دے وچ نروار دے وچ
بیمار سجاد مہاری وی ہے درداں دی بھر مار دے وچ
ہے پاک رسول دی آل ایہا تھی قیدی آئی دربار دے وچ
سب ویر کوہا کے آگئی ہے کونین دی پاک شہزادی
جتھ نس آونا اتھ آگئی ہے لاچاری عون دی ماء دی
ہئی باجھ کفن دے دھوپ اتے پئی لاش حسین بھرا دی
ہر موڑ اتے ہس فکر رہی بس اپنی پاک ردا دی
منہ چم اصغرؑ دا شاہ آکھے منگ پانی پتر صغیر اے
متاں مل پووی اج کربل وچ کر چا اے حجت اخیر اے
لب کھل گئے سوہنے اصغر دے منگا پانی پتر شبیرؑ اے
اے سن کے حرمل تیر مارا گیا گل اصغرؑ دا چیر اے
مقبول ذکی مقبول کی یہ کتاب "سجدہ ” ہمیشہ ہمیشہ ان کی عقیدت و مودت کا حوالہ رہے گی ۔ وہ ظاہری ایک چھوٹا ملازم ہے۔ مگر ان کی شاعری دائمی شہرت ، عزت اور سدا بہار نیکی مانی جاتی رہے گی ۔ راقم ( دلبر حسین مولائی) اس کتاب کو پڑھ کر اس کے عقیدے کا گواہ ہے کہ ذکی توحید پرست ہے ۔ نبی آخر حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کا کلمہ گو ہے اور مولا علی علیہ السلام کی ولادت پر ایمان رکھتا ہے ۔ چودہ معصوموں اور بارہ اماموں سے قلبی عقیدت ہے ۔ اے اللّٰہ میری دعا ہے کہ مقبول ذکی مقبول کی یہ کتاب اپنی بارگاہ میں قبول فرمایا اور اسے دنیا و آخرت کی بے شمار نعمتیں ، رحمتیں اور بخششِ عطا فرما ۔ آمین
دلبر حسین مولائی
ڈیرہ غازی خان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔