منظوم سوانح اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ

منظوم سوانح اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ

ڈاکٹر عزیزؔاحسن
منظوم سوانح اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ – ایک سوانحی منقبت!
سوانح نگاری میں دو رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ایک بے باک اور معروضی اظہار جس میں اپنے موضوع (subject) کی زندگی کے مثبت اور منفی ہر پہلو سے انصاف کیا جاتا ہے۔ کوئی چیز چھپائی نہیں جاتی۔ انسان کو بندہ بشر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس میں آدم کی لغزش کا امکان اور فرشتوں کی نورانیت کا جوہر پایا جاتا ہے۔ اس قسم کی سوانح میں عام دنیاوی مصلح، شعرا، ادبا، سیاسی رہنما اور بادشاہ وغیرہ کے احوال درج ہوتے ہیں۔ اس سوانح کو انگریزی میں BIOGRAPHY کہتے ہیں۔
سوانح کی دوسری قسم وہ ہے جس میں عقیدت کے موتی نچھاور کیے جاتے ہیں اور منثو ر یا منظوم منقبت نگاری کے جوہر دکھائے جاتے ہیں۔ اس قسم کی سوانح معروضی نہیں ہوتی ۔ اس میں سوانح نگار کا اپنے موضوع سے والہانہ عشق ظاہر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں سوانح نگار اپنے موضوع کی صرف اچھائیاں ظاہر کرتا ہے ۔
بشری کمزوریوں کو یا تو چھپا دیتا ہے یا واقعتاً اس کے موضوع میں وہ کمزوریاں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ اس قسم کی سوانح نگاری کو انگریزی میں HAGIOGRAPHY کا نام دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس قسم کی سوانح میں سوانح نگار اپنے موضوع(subject) کو ایک ولی، صوفی یا مقدس ہستی سمجھتا اوربڑے ادب اور تقدیسی احساس کے ساتھ اس کے خدو خال پیش کرتا ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز میں اس قسم کی سوانح نگاری کے مفہوم کو ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے:
The term [hagiography] is now often applied to modern biographies that treat their subjects reverentially as if they were saints. A writer of such works is a hagiographer. Adjective:
Hagiographic.
(Oxford Dictionary of Literary Terms)
اسلامی دنیا میں hagiography لکھنے کا جواز قرآن اور احادیث میں بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایادیا ہے:
’’بے شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ، عنقریب ان کے لیے رحمٰن محبت[پیدا] کردے گا‘‘یعنی ہم اپنے پیارے بندوں کی محبت قدرتی طور پر لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں کہ لوگ بلا ظاہری وجہ کے اُن سے الفت کرتے ہیں‘‘(سورۃ مریم ،۱۹، آیت ۹۶،نورالعرفان، ترجمہ و تفسیر احمد یار خان نعیمی)
محبوب گوہر اسلام پوری صاحب کی یہ منظوم سوانح بھی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی محبت کی جیتی جاگتی دلیل ہے،یہ بایوگرافی نہیں بل کہ ہیجیوگرافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں حرف حرف اور لفظ لفظ سے لکھاری کی عقیدت ٹپک رہی ہے۔
اس سوانح میں محبوب گوہر صاحب نے مختلف مآخذ سے واقعات اکھٹے کرکے انھیں نظم کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ اس میں خاندانی پس منظراور اعلیٰ حضرت کی ولادت سے وفات تک کے واقعات ہی کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے بل کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کے کم و بیش تمام گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔مریدین، خلفا اور متوسلین کا بھی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ اعلیٰ حضرت کے اولین سونح نگاروں اور فیض یافتگان کا بھی تذکرہ ہے۔
فتاویٰ نویسی اور علمی تبحر کا بڑے دل نشین انداز میں ذکر کرکے اعلیٰ حضرت کی عبقریت کا پہلو نمایاں کیاگیاہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت ؓ کی بے شمار سوانح موجود ہونے کے باوجود محبوب گوہر اسلام پوری
نے ان ہی مآخذ کی مدد سے منظوم سوانح نگاری کا اہتمام کیوں کیا؟
اس کا جواب مغربی نقاد کولرج کے الفاظ میں مل سکتا ہے۔ ڈاکٹر سجاد باقر رضوی نے کولرج کے الفاظ کو اردو قالب میں اس طرح ڈھالا ہے:
’’نثر میں الفاظ ،بہترین ترتیب میں پیش کیے جاتے ہیں اور شاعری میں بہترین الفاظ بہترین ترتیب سے پیش کیے جاتے ہیں‘‘
میں نے اس منظوم سوانح کو ازاول تا آخر پڑھا ہے اور مجھے اس میں شاعرانہ اظہارکی خوبیاں نظر آئی ہیں۔ اس منظوم سوانح کی زبان سلیس اور فصاحت کے قریب ہے۔ اس میں ایک محقق کی محنت بھی جھلکتی ہے۔

اس منظوم سوانح میں بڑی رواں دواں بحر ،بحرِ رمل مثمن محذوف استعمال کی گئی ہے۔اس میں ’’فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن‘‘ دونوں مصرعوں میں آٹھ بار آتا ہے۔ صاحبِ بحرالفصاحت لکھتے ہیں:
بسبب حذف کے ’’فاعلاتن‘‘ سے سببِ خفیف آخر کا گر کر ’’فاعلا‘‘ رہا۔ اسے ’’فاعلن‘‘ سے بدل لیا گیا‘‘(بحرالفصاحت، حصہ دوم، ص۱۲۷)
اساتذہ نے بھی خوب استعمال کی ہے۔ مثلاً
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں(غالبؔ)
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے(حسرت موہانی)
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسمِ گل ہے تمھارے بام پر آنے کا نام (فیض احمد فیض)
گوہر صاحب نے بھی یہی بحر بڑی خوبصورتی سے استعمال کی ہے۔ابتدائیہ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اک مکمل شخصیت اک عبقری و نابِغہ
جن کا شرق و غرب میں پھیلا ہوا ہے دائرہ
اجتہادی شان ہے ان کے ہراک اِقدام میں
ذاتِ عالی منفرد ہے عالمِ اسلام میں
جب کہیں سے وار ناموسِ رسالت پر ہوا
سامنے آیا دفاعی شکل میں کلکِ رضا
ان کی ہر تصنیف میں اس بات کا اظہار ہے
عشق احمد کا تصور زیست کا معیار ہے
نعت کے میدان میں نائب بنے حسان کے
گل تر و تازہ کیے ہیں گلشنِ ایمان کے
نعت میں ان کی ، ادب کا حسن جلوہ ریز ہے
بوحنیفہ کی فقاہت سے کیا یوں اکتساب
کردیا تحقیق کی دنیا میں برپا انقلاب
ان کی شہرت کا ہے بنیادی سبب عشقِ رسول
سامنے ان کے تھا حضراتِ صحابہ کا اُصول
ہر مجدد کو ہوا کرتا ہے حاصل اختصاص
تھا امام احمدرضا پر بھی خدا کا فضل خاص
ان اشعار میں زبان کی سلاست، فکر کی اِصابت اور شعری اظہاریے کی فصاحت نمایاں ہے۔ اس ابتدائیے سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ پوری نظم میں واقعات اور احوال کو مثنوی کی شکل میں، ہر شعر کے قافیہ اور ردیف کا منفرد نظام برقرار رکھا گیا ہے۔
مجھے پوری سوانح پر گفتگو کرنے میں قرطاس کی تنگ دامنی اور وقت کی قلت کا سامنا ہے۔ تاہم میں چاہتا ہوں کہ اعلیٰ حضرت ؓ کی نعتیہ شاعری کے ضمن میں جو کام ہوا ہے اس کی ایک جھلک دکھادوں۔ محبوب گوہر صاحب نے ہندوستان و پاکستان کے چند جرائد اور کتب کا ذکر کیا ہے۔ لیکن انھوں نے ’’نعت رنگ‘‘کا ذکر نہیں کیا۔شاید نعت رنگ ان تک پہنچا ہی نہ ہو!
صبیح رحمانی نے کتابی سلسلہ نعت رنگ کا پہلا شمارہ ’’تنقید نمبر‘‘ اپریل ۱۹۹۵ء میں شائع کیا تھا۔ بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ نعتیہ ادب میں علمی مباحث اور شعریت و شریعت کے پیمانے سے نعتیہ ادب کی چھان پھٹک کا کام اس کتابی سلسلے ہی کے آغاز سے شروع ہواتھا۔ نعت رنگ کا شمارہ ۱۸ دسمبر ۲۰۰۵ ء میں منصہء شہود پر آیا تھا جو ’’اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ‘‘ نمبر تھا۔ اس شمارے میں مختلف الفکرو مسلک اہلِ قلم نے اعلیٰ حضرت ؓ کے فکر و فن پر گفتگو کے در وا کیے تھے ۔ اس شمارے کے تمام مشتملات کا ذکر تو یہاں ممکن نہیں ، تاہم اس بات کا ذکر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر پروفیسر سید محمد ابوالخیر کشفی نے ’’سلامِ رضا کے دو باغوں کی سیر‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھ کر فکری اختلاف کے باوجود اعلیٰ حضرتؓ کے فن کی داد دی تھی۔ انھوں نے لکھا تھا:
’’سلامِ رضا کے ان مختلف حصوں کی تاثیر اور تناسب کی بنا پر یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں ہوگا بل کہ حقیقت کا اظہار ہوگا کہ حدائق نعت و ثنا ہے۔ ہر حدیقے کا رنگ دوسرے سے مختلف مگر ہم آہنگ ہے۔۔۔۔۔۔۔سلام کا آغاز ’رحمت‘ اور ’ہدایت‘ کے نغموں سے ہوتا ہے۔ دوسرے اور تیسرے اشعار میں ’رسالت‘ اور ’شفاعت‘م کے ذکر سے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی رسالت کے چار بنیادی عناصر کا ذکر مکمل ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔اس کائنات کی تاریخ میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا جو بزم ہدایت سے خالی رہی ہو اور آخر میں اس بزم کو ابدالآباد تک روشن رہنے والی شمع مل گئی۔اس شمع پر لاکھوں سلام اور لاکھوں درود۔ حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی ہدایت بھی ہے اور ہدایت کی برہانِ عظیم بھی۔‘‘ (نعت رنگ ۱۸، صفحہ ۲۸) ۔مرحوم پروفیسر کشفی نے اپنی اس تحریر میں سلامِ رضا کی شعری و شرعی قدر کا بڑی فراغ دلی سے تعین کیا اور اس کاوش کو منفرد قراردیا ہے۔’’ کلامِ رضا ۔۔۔۔فکری و فنیّ زاویے‘‘ کے نام سے صبیح رحمانی نے ایک پوری کتاب مرتب کی جس میں انڈو پاک کے بیشتر اہلِ قلم کی سنجیدہ تحریریں شامل ہیں۔ اس کتاب کے فلیپ پر معروف اسکالر پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی نے بڑی بصیرت سے ایک نکتہ بیان کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’امید ہے کہ جناب صبیح کی یہ کاوش ، کلامِ رضا کو محض مسلکی تقدس کے ہالے سے نکال کر معروضی فنیّ معیاروں کی روشنی میں پرکھنے اور مولانا کا خالص شاعرانہ مقام متعین کرنے کے سلسلے میں ایک اہم قدم ثابت ہوگی‘‘۔ڈاکٹر خورشید رضوی کی اس تحریر سے وہ احساس اجاگر ہوگیا کہ اعلیٰ حضرت ؓ کے ارادت مندوں نے کبھی ان کے ادبی معیارات کے حوالے سے معروضی انداز کی کسی تحریر کو پسند نہیں کیا، جس کا نقصان یہ ہوا کہ آپؓ کو ادبی سطح پر وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو آپؓ سے بہت کم درجے کے شعرا کو نصیب ہوگئی۔ اس موقع پر مجھے معروف نقاد مظفر علی سید کی ایک تحریر یاد آگئی ۔وہ لکھتے ہیں:
’’کسی بھی شاعرو ادیب کو فراموش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں کسی کو اختلافِ رائے کی اجازت نہ دی جائے۔ یعنی تنقید کی آزادی خود فنکار کے فن کی زندگی کی ضمانت ہے۔ تنقید سیاست کے میدان میں ہو یا ادب کے میدان میں، ایک قسم کا خود اصلاحی نظام
(Self-correcting mechanism)
ہے۔ ‘‘(مظفر علی سید۔۔۔ایک مطالعہ،ص۶۹)
میں نے اعلیٰ حضرت کی صد سالہ تقریب میں اپنے مضمون ’’کلامِ رضاؔ میں مناقبِ صحابہ کرام اور امہات ولمؤمنین‘‘ میں بھی یہ عرض کیا تھا:
’’عوامی مقبولیت چاہے کسی قدر اہم ہو، ادبی حیثیت سے کسی شاعر کی

Recognition     

نہ ہونا، ادبی دنیا کی بڑی محرومی ہے۔ تاریخِ ادب میں اعلیٰ حضرت کو ان کا جائز مقام نہ مل سکنے کی وجوہات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور اس روش کو بدلنے کے لیے آزاد فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے‘‘ (یہ مقالہ ۳۹ ویں سالانہ امام احمد رضا خاں کانفرنس بموقع سو سالہ عرس اعلیٰ حضرت ، بتاریخ ۲۸ مارچ ۲۰۱۹ء بمقام ہوٹل رمادہ ایئر پورٹ کراچی، زیرِ صدارت مفتی منیب الرحمان ، میں پڑھا گیا اور سالانہ مجلہ امام احمد رضا کانفرنس میں شائع ہوا)
محبوب گوہر صاحب نے اعلیٰ حضرت کی سوانح کو نظم کرنے میں اُن کی حیات کے پاکیزہ لمحات کو محفوظ بھی کیا ہے اور ان کے عصری ماحول کو بھی تاریخی تناظر میں اشاراتی انداز میں بیان کیا ہے۔ ’’عہدِ رضاکے فتنے اور ان کا استیصال‘‘ کے زیرِ عنوان محبوب گوہر نے اعلیٰ حضرت پر حالاتی صعوبت
(Situational Stress)
کے اثرات اور
حالاتی عوامل
کے کامل ادراک کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ اس کتاب میں اعلیٰ حضرت ؓ کی سرگرمیوں کے (Situational Factors)

بہت سارے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حضرت کی شاعری کے ذکرمیں انھوں نے بڑی خوبصورتی سے نعتیہ رنگ و آہنگ کی جانکاری دی ہے۔

ہیں امامِ نعت گویاں ، حضرتِ احمدرضا
متفق ہو کر یہ اہلِ علم و دانش نے کہا
کائناتِ نعت میں ان کی جداگانہ ہے شان
ان پہ ہے دل سےفدا شعروادب کا اک جہان
نائبِ حسان کا ہے ہند میں عہدہ ملا
رب کے فضلِ خاص سے یہ تمغۂ عظمیٰ ملا
اُن کے گلزارِ سخن کا ہشت پہلو رنگ ہے
دیکھ کر جس کی چمک دنیائے مدحت دنگ ہے
نعت گوئی کا ہے فن حاصل کیا قرآن سے
کرلیے افکار روشن لمعۂ حسان سے
شرعی و شعری تقاضوں کا رکھا پورا خیال
جلوہ فرما ان کے شعروں میں ادب کا ہے جمال
وہ عبادت جان کرہی لکھتے تھے نعتِ رسول
اس لئے مدحت ہوئی ان کی درِ شہ میں قبول
استعاراتی زباں ہے قابلِ صد آفریں
صنعتِ تلمیح سے آباد ہے شعری زمیں
حسن لفظی کی ادا اشعار میں ضوریز ہے
فکری رعنائی رضا کی سب سے دل آویز ہے
نعت گوئی میں ہے ان کے ہاں مکمل احتیاط
کھینچتے ہیں قلب کو نغماتی کیف و انبساط
لفظ و معنٰی میں ہے احساس و تخیل کا جمال
جذبہ و تاثیر سے آہنگ ہے شعری خیال
تازہ کاری ہے لیے تخئیل کی موزونيت
ذہن میں ہوتی ہے جس سے پیدا شعری کیفیت
پاک ہے افراط اور تفریط سے ہراک کلام
بارگاہِ مصطفیٰ کا ہے مکمل احترام
ہے کلاسیکی ادب سے پُر مشامِ لفظیات
اتصال و ہجر کی شامل ہیں اس میں کیفیات
چاشنی ہے، نغمگی ہے ، کیف ہے، تاثیر ہے
شعر کیا ہے؟آیتِ قرآن کی تفسیر ہے
ایسے بھی اوزان پر لکّھا کلامِ نعتیہ
جن کو چھونے سے بھی ڈرتے تھے ادب کے سورما
نعت کی کرنوں سے روشن ہوگئیں شعری جہات
آپ نے بزمِ سخن کو بخش دی تازہ حیات
آپ نے فرمایا راہِ نعت ہے اک پُل صراط
اِس لئے ہر حال میں لازم ہے اِس میں احتیاط
کتنے نقَّادانِ فن نے پڑھ کے دیواں کہہ دیا
نعت گویانِ جہاں کے ہیں امام، احمدرضا
چار بھاشاؤں میں اک نعتِ حبیبِ کردگار
ہے امامِ اہل سنت کی نہایت شاندار
صنعتِ تلمیح کی شعروں میں ہے جلوہ گری
جدّتِ افکار کی پھیلی ہوئی ہے دل کشی
اعلیٰ حضرت کا ہے مشہورِ زمانہ جو سلام
اس کا ہے اردو سلاموں میں بڑا اعلیٰ مقام
ہے دبستانِ سخن میں منفرد اس کا جمال
اس کی فنّی جامعیت کی نہیں ملتی مثال
ہے سراپائے نبی کا تذکرہ اس طور پر
جیسے ہوں قرطاس پر تفسیر کے پھیلے گہر
یہ چند اشعار اعلیٰ حضرت ؓ کی نعتیہ شاعری، بالخصوص ان کے لکھے سلام پر اعلیٰ درجے کا ناقدانہ تبصرہ ہے۔ میں نے صرف چند اشعار نقل کیے ہیں۔ شعریات سے منسوب پورا باب تنقیدی نکات اور نعت شناسی کے ادراک کا آئینہ دار ہے۔
محبوب گوہر صاحب نے جوشِ عقیدت میں ہوش قطعی نہیں کھوئے ہیں۔ انھوں نے ہر واقعے کی سند کی طرف اشارے بھی کردیئے ہیں۔ موصوف کی زبان و بیان میں ادبیت جھلک رہی ہے اوران کی شعری قوت سے اشعار میں روانی اور فکری Flow محسوس ہوتا ہے۔ یہ ان کے قادرالکلام ہونے پر دال ہے۔ میں اس ہفت خواں کو طے کرنے پر انھیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ محبوب گوہر صاحب کا ’’رفتگاں‘‘ سے محبت کا رشتہ دیکھ کر مجھے ایک بار پھر مظفر علی سید یاد آگئے۔ وہ کہتے ہیں:
’’رفتگاں سے مضبوط رشتہ اس شعور سے جنم لیتا ہے جو قومی امنگوں اور آرزوؤں سے واقف ہونے کا نام ہے۔ جو کمالاتِ ماضی کی سمت اور وسعت کا اندازہ کرنے کا نام ہے۔ جو چند ایک لوگوں سے وابستہ چند ایک یادوں یا چند نرم گوشوں کو سہلانے کا نہیں، بل کہ تاریخ کے فہم سے پورے ماضی کو معقول اور متوازن نظر سے دیکھنے کا نام ہے’‘‘(مظفر علی سید۔۔۔ایک مطالعہ، ص۱۱۷)


مجھے خوشی ہے کہ’’رفتگاں‘‘ کے ذکر کی محفل سجا کر محبوب گوہر صاحب نے ، مستقبل میں اعلیٰ حضرت کے فکر و فنِ کے حوالے سے کام کرنے کا ارادہ رکھنے والوں کے لیے سمت نمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کتاب سےرضاؔ شناسی کے بے شمار آفاق وا ہوں گے۔ شعری ذوق رکھنے والے اس منظوم سوانح سے واقعات و حالات کو شعری پیکر میں دیکھ کر،تسکینِ ذوق کی خاطر اس طرف متوجہ ہوں گے اور تاریخی شعور رکھنے والے قارئین حالاتی عوامل
(Situational Factors)
سے آگاہی حاصل کرسکیں گے۔
ڈاکٹر عزیز احسن
بدھ: ۱۲ محرم الحرام ۱۴۴۴ء مطابق: ۱۱ اگست ۲۰۲۲ء

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ڈاکٹر رضوان اسد خان کا افسانہ "الوداع"

جمعہ اپریل 5 , 2024
ڈاکٹر رضوان اسد خان ایک چائلڈ سپیشلسٹ ہیں، اس وقت سعودی عرب میں بطور کنسلٹنٹ کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر رضوان اسد خان کا افسانہ “الوداع”

مزید دلچسپ تحریریں