ڈاکٹر طارق انور باجوہ کی نظم "عید مبارک” میں دعائیہ عناصر کا تجزیاتی جائزہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
[email protected]
ڈاکٹر طارق انور باجوہ کی نظم "عید مبارک” عید الفطر کی پرمسرت موقع اور اہمیت پر مبنی بہترین نظم ہے، جس میں رمضان کے روزوں کے پرمسرت اختتام اور عقیدت کی برکات کا ذکر کیا گیا ہے۔ بہترین اشعار اور دلچسپ منظر کشی کے ذریعے ڈاکٹر طارق انور باجوہ نے اس مبارک موقع کے جوہر کو خوبصورتی سے نظم میں بیان کیا ہے۔
نظم کا آغاز عید کی خوشی کے لیے دلی تمنا کے ساتھ ہوتا ہے، جو دعاؤں کے لیے تمناؤں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ شاعر شکرگزاری اور عکاسی کا لہجہ ترتیب دے کر اشعار کو آگے بڑھاتا ہے، قارئین سے عید کی برکات اور روحانی کامیابیوں کا جائزہ لینے کی تاکید کرتا ہے۔ روحانی دولت کا خیال نہ صرف مذہبی اعمال بلکہ حصول علم سے بھی ماپا جاتا ہے آپ کی نظم کے تانے بانے میں عید کی اہمیت کو باریک بینی سے شامل کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر طارق انور باجوہ کی منظر کشی سچائی اور خوبصورتی کے متلاشیوں کو جگہ جگہ اپنے اعمال پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے پھر بھی وہ جس گہرائی کی تلاش کرتے ہیں وہ کہیں نہیں پاتے — جب تک کہ وہ چمکتے سورج یا چمکدار چاند کا سامنا نہ کریں۔ روشن خیالی کی یہ استعاراتی جستجو روح کے روحانی تکمیل کی طرف سفر کی آئینہ دار ہے، جہاں الہٰی قدرت کی موجودگی کو آسمانی اجسام کی چمک سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
شاعر نے صحبت کی خوبصورتی اور فضل کی مزید تعریف کرتے ہوئے ہمیں ان لوگوں کے شانہ بشانہ چلنے کی تاکید کی ہے جو وقار اور عزت کی علامت ہیں۔ نیک رفاقت کا یہ جذبہ اپنے آپ کو نیک صحبت کے ساتھ گھیرنے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، جس کی جڑیں اسلامی تعلیمات میں گہری ہیں۔
پوری نظم میں الٰہی نعمتوں اور ہر قدم کے ساتھ لامحدود دعاؤں کا بار بار چلنے والا نقش موجود ہے۔ کثرت اور خیر سگالی کا یہ عکس عید کے دوران اجتماعی جشن کے جذبے پر زور دیتا ہے، جہاں اجتماعی دعائیں اور نیک تمنائیں دلوں اور دماغوں کو پرسکون کر دیتی ہیں۔
جوں جوں نظم آگے بڑھتی ہے ڈاکٹر طارق انور باجوہ باجوہ کی اشعار ثابت قدمی اور علم کے حصول کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور یہ تجویز کرتی ہیں کہ ناقابل جواب سوالات بھی بالآخر گہری بصیرت کا باعث بن سکتے ہیں۔ فکری اور روحانی ترقی کی یہ دعوت عید کے جوہر کے ساتھ سامنے آتی ہے، جو نہ صرف روزے کے اختتام کو خوبصورتی سے سامنے لاتا ہے بلکہ ذاتی اور اجتماعی خوشی کا دن بھی ہے۔
الہٰی رحمت اور تندرستی کے لیے شاعر کی دعوت زندگی کے چیلنجوں کے درمیان امید اور یقین دہانی کے جذبات کی بازگشت کرتی ہے۔ خواہ دُعا کا سامنا ہو یا مصیبت کا، نظم الٰہی قدرت پر بھروسہ اور مصیبت کے وقت لچک پر زور دیتی ہے۔
اپنی اختتامی سطروں میں ڈاکٹر باجوہ کی نظم "عید مبارک” ہمارے لیے قناعت اور ایمان کا ایک اعلیٰ پیغام لے کر آتی ہے۔ ڈاکٹر طارق انور باجوہ کی فکر انگیز اشعار روحانیت اور رجائیت کے گہرے احساس کی عکاسی کرتی ہیں، جو عید الفطر کی تجدید، تشکر اور امید کے آغاز کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔
ڈاکٹر طارق انور باجوہ کی شاعرانہ صلاحیت اس اشتعال انگیز تحریر میں چمکتی ہے، جو قارئین کو عید الفطر کی خوشیوں اور امنگوں کے ذریعے ایک عکاس سفر پیش کرتی ہے۔ اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کے ذریعے ڈاکٹر باجوہ ہمیں عید کے جذبے کو کھلے دل اور دماغ کے ساتھ قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں، ان الٰہی نعمتوں کا جشن مناتے ہیں جو ہماری زندگیوں کو تقویت بخشتی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ڈاکٹر طارق انور باجوہ کی نظم "عید مبارک” عید الفطر کی روحانی اہمیت کی ایک پُرجوش یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے، جو ہمیں زندگی کے سفر پر چلتے ہوئے شکر گزاری، علم اور صحبت کی خوبیوں کو اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ نظم کے لازوال موضوعات ہر عمر کے قارئین کو پسند آئینگے جو اس مقدس موقع کی وضاحت کرنے والی روایات کے لیے اتحاد اور احترام کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے ڈاکٹر طارق انور باجوہ کی نظم پیش خدمت ہے۔
*
"عید مبارک”
*
مبارک عید کی خوشی، دعا کا استجاب ہو
قدم قدم ہو سرخرو ، تمہارا جب حساب ہو
عبادتیں جو کیں، تمہارے ساتھ، عمر بھر رہیں
علوم ہوں نصیب، جن کی رہنما کتاب ہو
نگر نگر پھرے مگر کہیں ملا نہ وہ گہر
جو چندے آفتاب ہو جو چندے ماہ تاب ہو
جمال وحسنِ یار ہے، جو چال میں وقار ہے
جو اس کے ساتھ تم چلو مصاحبِ نواب ہو
زمانے بھر کی نعمتیں خدا کرے تمہیں ملیں
قدم قدم دُعا تمھارے ساتھ بے حساب ہو
جہاں کہیں بھی تم رہو ہمیشہ یوں ہی خوش رہو
خدا کرے نصیب میں تمہارے آب و تاب ہو
چلے چلو ،جو رات ہے یہ کچھ دنوں کی بات ہے
کھلا ہوا ملے تمہیں جو رحمتوں کا باب ہو
رہیں بلندحوصلے، بڑھاؤ علم اس قدر
سوال گر کرے کوئی ، جواب لاجواب ہو
اگر لبوں پہ ہو دُعا ، تو کب مرض ہے لا دوا
کوئی بھی ہو علاج پھر، تمہیں نہ اضطراب ہو
عطا وہ روز گار ہو، ترقّیاں تمہیں ملیں
جو کام حوصلے کا ہو ، تمہارا انتخاب ہو
تمہاری خدمتوں سے خوش تمہارا رہنُما رہے
ہے وقت بہترین جب کہ عالمِ شباب ہو
رضا خدا کی ہو عزیز ، رنج ہوں یا راحتیں
ہے طارقؔ ایک فکر بس، نہ عاقبت خراب ہو
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔