فلسفہ بیگانگی اور مزدور کا استحصال
دنیا سے غربت اور مفلسی کے خاتمے کے لیئے روئے زمین پر وسائل، ذرائع یا دولت وغیرہ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ قدرتی اور فطری طور پر زمین پر اتنی ہی مخلوقات کو پیدا کیا گیا ہے جتنی زمین پر ان کے ہمیشہ زندہ رہنے کی وافر مقدار میں خوراک موجود ہے۔ اگر آج امریکی ادارہ ناسا (NASA) دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار ڈھونڈ رہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ زمین پر ذرائع یا خوراک کی کمی نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد کائنات میں کسی جگہ انسانیت کے لیئے ایسا محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈنا ہے جہاں وہ لمبی عمر پا سکے یا ہمیشہ کے لیئے زندہ رہ سکے۔
کارل مارکس نے غربت کے بارے اس بات سے شدید اختلاف کیا تھا کہ آبادی بڑھنے سے غربت قدرتی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ آبادی کے کم یا زیادہ ہونے کا قدرتی وسائل سے کوئی ریاضیاتی موازنہ نہیں بنتا ہے۔ یہ بات سماجی محنت اور جدوجہد کے فلسفہ کے بھی خلاف ہے کہ قدرتی وسائل اتنے کم ہو سکتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری نہ کر سکیں۔ کارل مارکس کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر غربت سرمایہ داری نظام کے سماجی ساخت کا لازمی نتیجہ ہے۔ سرمائے کی نہ ختم ہونے والی ہوس کی وجہ سے مزید سرمایہ پیدا کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اس کی بہترین مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ ایک گھر میں محنت کرنے والے دس افراد ہوں تو دوسرے گھر میں ایک محنت کرنے والا ہو تو ایک کے مقابلے میں دس محنت کرنے والوں کے پاس اصولی طور پر زیادہ وسائل اور دولت ہو گی۔
کارل مارکس کی نظر میں بھی غربت کی بنیادی وجہ بڑے پیمانے پر دولت اور ذرائع کا استحصال ہے۔ مارکس کا اصرار تھا کہ دنیا میں موجود وسائل آبادی کے لئے کافی ہی نہیں بلکہ کافی سے زیادہ ہیں۔
مارکس کے خیال میں المیہ یہ ہے کہ ایک مخصوص اقلیت ان وسائل کا استعمال اس طریقے سے کرتی ہے کہ دنیا کی آبادی کا غالب حصہ ان کے ثمرات سے محروم رہ جاتا ہے۔ آج 200 سال گزرنے کے بعد بھی مارکس کا یہ تجزیہ صحیح ثابت ہو رہا ہے کہ دنیا کے جن سینکڑوں یا ہزاروں افراد کے پاس پیسہ زیادہ ہے ان کے پاس مزید پیسے کی تعداد اور وسائل کی مقدار بڑھ رہی ہے۔ اس وقت بھی ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک قدرتی وسائل کا استعمال غریب ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مقدار میں کر رہے ہیں۔ یہ ممالک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ دولت کو جمع کرنے اور اس کا ارتکاز کرنے کے لیئے بھی غریب ملکوں کے وسائل لوٹ کر اپنے ممالک میں لے جاتے ہیں۔
سرمایہ داری نظام کا ایک یہی المیہ نہیں بلکہ دنیا میں جنگ و جدل کو فروغ دے کر اور اسلحہ بیچ کر کمزور ملکوں کو غلام بنانا اور ان سے زیادہ سے زیادہ دولت بٹورنا بھی ایک نہ ختم ہونے والا انسانیت سوز کاروبار ہے، جو اس وقت بھی دنیا کا سب سے بڑا اور منافع بخش کاروبار ہے۔
کارل مارکس نے سرمایہ داری نظام کے اس غیر انسانی اور غیر اخلاقی پہلو کو اجاگر کیا کہ یہ نظام پیداواری عمل کے دوران انسان کو بھی ایک شے یا جنس (commodity) کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ مارکس نے مالتھس کے نظریے کی یہ کمزوری بھی واضح کی کہ وہ غربت میں اضافے کی وجوہات میں سرمائے کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو نظر انداز کر دیتا ہے اور صرف آبادی میں اضافے کو اس کا سبب بتاتا ہے۔ مارکس نے کہا کہ سرمایہ داری کے بدترین استحصال کے نتیجے میں جدید اقتصادی نظام آبادی کے ایک بڑے حصے کو بیگانگی کا شکار کر دیتا ہے جس سے سرمایہ دار اشرافیہ کے مقابلے میں کمتر "مزدور طبقہ” پیدا ہوتا ہے جس سے یہ نچلا طبقہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے ایک خطرناک حد تک بیگانہ ہو جاتا ہے۔
اس فلسفے کو کارل مارکس "فلسفہ بیگانگی” یا "لاتعلقی” (alienation) کا نام دیتے ہیں۔ یہ نظریہ محض مارکس کے ذہن کی اختراع نہیں ہے بلکہ یہ نفسیات کی ایک پرانی اصطلاح ہے۔ اس سے مراد وہ ذہنی کیفیت ہے جس کے باعث انسان اپنے معاشرے، اپنی تہذیب اور حتی کہ اپنی ذات سے بھی کٹ کر رہ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک مزدور ہزاروں لاکھوں کی بستی میں بھی اپنے آپ کو تنہا اور بے یار ومدد گار محسوس کرتا ہے۔ اس کو اپنے گرد و پیش کی ہر چیز اجنبی اور غیر نظر آتی ہے اور وہ معاشرے کی تمام قدروں اور ساری سرگرمیوں کو بے معنی سمجھنے لگتا ہے۔ اس سے معاشرے میں خواہ مخواہ نہ صرف طبقاتی تقسیم پیدا ہوتی ہے، بلکہ یہ گھٹیا سوچ مزدور اور ان پڑھ افراد کے علاوہ تعلیم یافتہ طبقے میں بھی نفرت، حقارت، حسد اور منافقت کو جنم دیتی ہے۔
اس ذہنی بیماری کی دوسری علامت لاچاری اور بے بسی کا شدید احساس ہے۔ ایسی کسی صورتحال میں انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ مجھ کو اپنی زندگی پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ وہ مزدور یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے حالات کی اصلاح کر سکتا ہوں اور نہ ہی میرے عمل سے دنیا میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔
بے مقصدیت کا یہ احساس اس کو سماجی قدروں سے دور لے جاتا ہے اور بے بسی کا احساس اسے اپنے کردار و عمل سے بھی بیگانہ بنا دیتا ہے۔
ہمارے پاکستانی معاشرے میں عوام کی اپنے مسائل سے لاتعلقی زیادہ تر اسی سماجی تفاوت اور بیگانگی کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں ہمارے نوجوان سماجی برائیوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ جدوجہد کی بجائے جھوٹ اور فریب کو اپناتے ہیں اور زندگی میں دولت اکٹھی کرنے کے لئے "شارٹ کٹس” ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض صورتوں میں وہ "مافیا” اور "انڈر ورلڈ” کے ورغلانے سے خود کش حملے کو بھی اپنے اور معاشرے کے مسائل کا حل سمجھنے میں عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔
موجودہ دور میں پاکستان تیسری دنیا کے ممالک میں سرمائے کے ارتکاز کی عملی "تجربہ گاہ” بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے حکمران خود سرمایہ دار ہیں، وہ ملک سے پیسہ اور ذرائع لوٹتے ہیں اور باہر کے ترقی یافتہ ممالک میں جائدادیں بناتے ہیں۔ ہمارے حکمران شرمناک حد تک اس بات پر فخر کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ہمارے ملک میں ”سستی لیبر” میسر ہے۔
پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کا یہ ایک انتہائی گھٹیا ہتھیار ہے کہ ہمارے ملک میں مزدور سستا ہے۔ حالانکہ کہ یہ ہمارے حکمران ہیں جن کی سوچ سستی(Cheap) ہے، کیونکہ وہ سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پاکستان لا کر انہیں ہمارے محنت کشوں کا استحصال کرنے کی کھلی چھٹی دیتے ہیں جس کا مقصد "کک بیکس” کھانا ہوتا ہے اور منافع کے لالچ میں حکمران ان بیرونی کمپنیوں کو ہر قسم کی ناجائز مراعات بھی دینے کے لیئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |