16 دسمبر 2014 ہی کے دن جب میں اسلام آباد کے پرانے ائرپورٹ سے مسقط آنے کے لئے امیگریشن کلیر کرکے ڈیپارچر لاونج میں آیا تو دیوار پہ نصب ٹی وی اسکرین پر نظر پڑی ۔ قیامت صغری برپاء تھی ۔ کچھ سمجھ نہیں آرھا تھا ، کیا ہوا ۔ اپنے آپ کو سنبھالا اور غور سے دیکھا تو خبر چل رہی تھی کہ آرمی پبلک اسکول پیشاور میں معصوم بچوں پر دھشت گرد حملہ ہوگیا ہے ۔ ریسکیو آپریشن جاری تھا ، ابھی خبریں چل رہی تھیں کہ آواز آئی ،
” عمان ائر کی فلائٹ مسقط جانے کے لئے تیار ہے مسافروں سے التماس ہے کہ گیٹ پر تشریف لے جائیں ۔
بوجھل قدموں کے ساتھ جہاذ تک گیا۔ مسقط پہنچ کر تفصیلات سنی تو کلیجہ منہ کو آرھا تھا ۔ ننھے پھولوں کو کلاشنکوف کی بے رحم گولیوں نے بھون ڈالا تھا ۔ مائیں بلبلا رہی تھیں ۔ پوری قوم غم سے نڈھال ۔
ھلاکو اور چنگیز کے قتل عام کے قصے تو سن رکھے تھے لیکن تاریخ میں کہیں بھی ہمیں سوائے کربلاء کے ، ایسی بربریت کی مثال نہیں ملتی جہاں چھوٹے چھوٹے ، ننھے منے معصوم بچوں کو اتنی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہو ۔ وہ مائیں جن کے جگر گوشے اسکول سے واپس نہیں آئے ، آج تک ان کی راہ تک رہی ہیں ۔
” پھول تو کچھ دن بہار جاں فزاء دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاء گئے "
آئیے ، ہم سب مل کر اے پی ایس کے ان ننھے شہیدوں کو یاد کریں جنہوں نے اپنے خون سے اس وطن کو سرخ رو کیا ۔
پاک فوج زندہ باد
پاکستان پائیندہ باد
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔