پیر سپاہی سے حق پیر تک
ہمارا ملک لاحاصل افواہوں، فضول بحثوں اور چٹخارے دار گپ شپ کا "ٹی ہاوُس” بنتا جا رہا ہے۔ جب سے سوشل میڈیا کو عروج حاصل ہوا ہے ہرکس و ناقص رائے دہندہ خود کو دانشوروں کا "تیس مار خان” سمجھنے لگا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب فیس بک، ٹویٹر یا انسٹاگرام پر کوئی نیا ٹرینڈ نہ چلا ہو۔ عوام الناس پہلے پہل حجاموں کے گرد جمع ہو کر ملکی صورتحال پر بحث کر کے دل کی بھڑاس نکالتی تھی اب لوگ اس مقصد کے حصول کے لیئے صبح سویرے ہی وٹس ایپ گروپوں میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔ اس مد میں میرے موبائل فون پر اس قدر زیادہ ناپسندیدہ (Unwanted) ویڈیوز اور منقول تحریریں آتی ہیں کہ بعض اوقات فون آن کرنے کے بعد بہت دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کب میسجز آنا بند ہوں اور کب فون کو مطلوبہ مقصد کے لیئے استعمال کیا جا سکے۔ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ موبائل فون پر اتنے زیادہ میسجز، تحریریں اور ویڈیوز وغیرہ آتی ہیں کہ بیچارے فون میں جتنی مرضی سپیس ہو وہ "ہیلڈ” ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں ٹک ٹاک پر چند سالوں سے پہلے نمبر پر آ رہا ہے۔ یہ سچ ہے یا پھر افواہ ہے یہ بھی سنا ہے کہ پاکستان کے چند مشہور "ٹک ٹاکرز” چند گھنٹے ٹک ٹاک پر بیٹھ کر روزانہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیار غیر میں بہت سے لوگوں نے اپنے کاروبار میں بڑے پیمانے پر کامیابی اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹس کی وجہ سے حاصل کی ہے۔مجھے ٹک ٹاک سے اس وجہ سے سخت نفرت ہے کہ اس پر انتہائی منفی اور فضول قسم کی گفتگو ہوتی ہے جو سراسر وقت کا ضیاع ہے، بلکہ جتنی بیہودہ "حرکات” ٹک ٹاک پر دیکھنے کو ملتی ہیں اتنی شائد ہی کسی دوسرے میڈیم پر ملتی ہوں۔ ایک دو دفعہ زبردستی کسی نے لائیو ٹک ٹاک دکھائی جس کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ہماری نوجوان نسل کی اجتماعی سوچ بیہودگی کے کس بدنما گٹر میں گرتی چلی جا رہی ہے۔ ٹک ٹاک پر براجمان مشہور بندے جس قسم کی نامعقول باتیں کرتے ہیں، گیمیں لگاتے ہیں، مجرے کرواتے ہیں اور اپنے مدمقابل کے لیئے جس نوع کی سزائیں تجویز کرتے ہیں، الحفیظ الامان!
سوشل میڈیا معلومات کا بہت بڑا خزانہ ہے اور کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ اس سے عوام الناس کی مثبت اور تعمیری ذہن سازی کی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے اس نعمت کو بھی اپنے لیئے ایک زحمت بنا لیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ٹرینڈ سیٹر موضوعات انتہائی ناگفتہ بہہ ہوتے جا رہے ہیں۔ کہیں کسی معاصر صحافی کے ایک ادارہ کو چھوڑنے اور اس کی تنخواہ پر ڈسکس ہو رہی ہے، کوئی اس کے حق میں دلائل دے رہا ہے اور کوئی اس کی مخالفت میں گلا پھاڑ پھاڑ کر صلواتیں سنا رہا ہے۔ کسی جگہ پنجاب کی وزیر اعلی کے اپنے ایم پی ایز کے شوکاز نوٹسز کا تیاپانچہ کیا جا رہا ہے، اور کسی جگہ ایچیسن کالج کی فیس معافی کا رولا چل رہا ہے، کہیں گورنر پنجاب اور پرنسپل ایچیسن کالج دست و گریبان نظر آتے ہیں اور کسی دوسری جگہ حق پیر شف شف کے چیلنجز کا ذکر چل رہا ہوتا ہے۔ کسی بھی جگہ اس پلیٹ فارم پر علمی یا سائنسی گفتگو نہیں ہو رہی ہوتی۔
سوشل میڈیا پر چند روز سے ایک ایسی ویڈیو بھی ثواب سمجھ کر آگے شیئر کی جا رہی ہے جس میں حق پیر انگلینڈ کے ایک پڑھے لکھے مجمع میں سپیکر پر "شف شف” کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس مذہبی دم پھوکا کے اجتماع میں تمام حاضرین نے سر پکڑ رکھے ہیں اور حق پیر زور زور سے اپنا ورد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح کا ایک پیر جنرل ضیاءالحق کے دور میں "پیر سپاہی” کے نام سے بھی ابھرا تھا جو پنجاب بھر میں دورے کرتا تھا، لوگ بوتلوں میں پانی بھر کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ وہ بوتلوں کے ڈھکن کھلواتا تھا اور پھر کچھ کلمات پڑھ کر سپیکر میں پھونک مار دیتا تھا، جبکہ آج کل وہی کام حق پیر کر رہا ہے۔ ایسی حرکات کو کون جنم دیتا ہے اور یہ کیوں اور کیسے پروموٹ ہو جاتی ہیں، کم از کم یہ بات میری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔
کل ہی یہ خبر بھی آئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ فاضل جسٹس صاحبان نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک دھماکہ خیز خط لکھا ہے جو اس پورے سسٹم کو ہلا کر رکھ سکتا ہے۔ یہ خط رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ اللہ رحم کرے۔ ہم سب پاکستانی کس طرف جا رہے ہیں؟ شائد ہم سب بے منزل مسافر ہیں۔ کیا ہم سب اجتماعی طور پر خوفناک تباہی کی طرف رواں دواں ہیں یا کسی مہیب گڑھے میں گرنے والے ہیں؟
سوشل میڈیا کے اس طاقتور دور میں ہم کس منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ہماری کیا ترجیحات ہیں اس کی طرف اشارہ گزشتہ نشت میں بھی کیا تھا۔ اب ایک صاحب نے توجہ اس طرف دلائی ہے کہ "گانا گانے پر راحت فتح علی خان کو ہلال امتیاز اور گانا گانے سے روکنے پر مولانا طارق جمیل کو بھی ہلال امتیاز!”
یہ گُنبدِ مِینائی، یہ عالمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہُوا راہی مَیں، بھٹکا ہُوا راہی تُو
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی!
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔