ڈاکو راج کی سرپرستی
اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ نہیں تھا مگر صوبہ سندھ کی ہماری ایک بہن وقفے وقفے سے یہ طعنہ دیتی رہتی ہیں کہ پنجاب کے لکھنے والے سندھ میں جو ظلم و زیادتیاں ہو رہی ہیں اس پر قلم کیوں نہیں اٹھاتے ہیں۔ ہماری اس بہن کا تعلق ایک بڑے سیاسی خاندان سے ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے پیپلزپارٹی بنانے کا منصوبہ ان کے والد گرامی کے گھر میں بیٹھ کر بنایا تھا۔ محترمہ کے چچا سندھی لٹریچر کے مشہور لکھاری ہیں اور وہ خود بھی سندھی زبان و ادب کی ایک مایہ ناز تخلیق کار ہیں۔ وہ مظلوم انسانیت کے لیئے بھی وقتا فوقتا آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ میں نے بوجوہ ان کا نام صیغہ راز میں رکھا ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے یہ موضوع انتہائی حساس ہے ۔ اس حوالے سے آج صبح سندھ کی ایک اور اعلی خاتون عہدیدار نے اپنی ایک وائس ویڈیو بھی بھیجی جو ان دنوں سوشل میڈیا اور وٹس ایپ گروپس میں تیزی سے وائرل ہو رہی ہے تو سوچا کہ سندھ کے حالات اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے مقتدرہ اور عوام کو ضرور آگاہ کیا جانا چایئے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اس پیغام میں وہ خاتون صوبہ سندھ کراچی میں سیاسی قیادت سے مخاطب ہو کر کہتی نظر آتی ہیں کہ کراچی اور دیگر سندھ میں عوام کے ساتھ کچے کے ڈاکو قتل و غارت گری، اغواء اور تاوان کی مد میں جو زیادتیاں کر رہے ہیں آپ میں اگر دم ہے تو آپ اس کی اطلاع متعلقہ اداروں کو روبرو جا کر کیوں نہیں کرتے ہیں؟ اس ویڈیو میں واضح طور پر یہ خاتون کچے کے ڈاکوؤں سے ملے ہوئے لوگوں کے نام لے لے کر وضاحت کرتی ہیں کہ ان ڈاکوؤں کی سرپرستی کون کر رہا ہے۔ یہ ڈاکو مظلوم اور غریب عوام سے بھتہ اور تاوان وصول کرتے ہیں اور وہ نہ دیں تو ان کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ خود کچے کے ان ڈاکوؤں سے بھتہ اور تاوان کچھ پولیس افسران اور حکومتی کارندے لیتے ہیں جو ان سے ملے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا "ریاست” کچے کے ڈاکوؤں کی ان الاعلانیہ اور دن دہاڑے کی کارروائیوں سے بے خبر ہے؟
سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اکثر وائرل ہوتی رہتی ہیں جس کے دوران مشین گنیں، بکتر بند گاڑیاں، راکٹ لانچر اور دیگر اسلحہ دکھایا جاتا ہے جس میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی لائیو ویڈیوز کو بھی نمایاں کوریج دی جاتی ہے اور پولیس کو بھی ڈرایا دھمکایا جاتا یے۔ حتی کہ یہ ڈاکو اپنے پیغامات میں ریاست پاکستان تک کو للکارتے دکھائی دیتے ہیں تاکہ متاثرہ اور مظلوم عوام الناس پر ڈاکوؤں کی دہشت اور خوف و ہراس کو قائم رکھا جا سکے۔ پورے ملک میں سیکورٹی خدشات کے نام پر انٹرنیٹ کی سروس معطل کی جاتی ہے مگر کچے کے ڈاکو بلاتعطل اس سہولت کو استعمال کرتے ہیں۔ ان ڈاکوؤں کے پاس باقاعدہ وائرلس سسٹم بھی موجود ہوتا ہے۔ ان کے پاس یہ ساری سہولیات کہاں سے آتی ہیں اور اس کے سہولت کار کون ہیں اس پر آج تک کسی حکومت یا مقتدرہ نے تحقیق کروائی ہے اور نہ ہی ان کے مکمل خاتمہ کے لیئے کبھی کوئی بڑی کاروائی کی ہے۔
کچے کے ڈاکوؤں کی یہ ظالمانہ کارروائیاں گزشتہ چار دہائیوں یعنی 40 سال سے ہی بلاخوف و تردید جاری نہیں ہیں بلکہ سندھ کے ڈاکوؤں کی ایک مشہور کہانی ہمارے مطالعہ پاکستان کے نصاب میں بھی شامل کی گئی جس کا تعلق 8ویں صدی سے ہے جب عرب تاجروں کا ایک بحری جہاز سری لنکا سے حجاز جا رہا تھا تو راجہ داہر کی پشت پناہی میں سندھ کے سمندری قزاقوں نے اس بحری جہاز پر لوٹ مار کی تھی جس کے بعد اموی خلیفہ حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو سندھ پر حملہ کرنے کے لیئے بھیجا تھا۔
بعض صورتوں میں یہ ڈاکو پورا گاو’ں، بارات یا تھانے وغیرہ کے عملے کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں جن میں عمر رسیدہ عورتیں، بچے، جوان اور بوڑھے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ ڈاکو ہر ماہ اوسطا 200 سے 300 تک افراد کو تاوان حاصل کرنے کے لیئے اغواء کرتے ہیں اور تاوان نہ ملنے پر ان کو قتل کر دیتے ہیں جن کی بعد میں وہ سوشل میڈیا پر لائیو ویڈیوز شیئر کرتے ہیں۔
اپریل سنہ 2016ء میں جنوبی پنجاب میں کچے کے ‘چھوٹو گینگ’ نے 22 پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا تھا۔ جوابی کارروائی کے دوران 7 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلی شہاز شریف (جو اس وقت وزیراعظم ہیں) نے فوج کی مدد طلب کر لی تھی اور آپریشن "ضرب آہن” کے بعد ڈاکوؤں کے سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو کے گینگ کے خلاف ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے تھے، جس کے بعد چھوٹو گینگ نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ اس کے باوجود ان ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ نہ کیا جا سکا۔ حتی کہ ان کی دہشت گردانہ کاروائیاں آج بھی جاری ہیں جن کے ہاتھوں صدر مملکت آصف علی زرداری کا حلقہ لاڑکانہ بھی محفوظ نہیں ہے جہاں سے اس وقت بھی 30 سے 40 افراد ڈاکوؤں کی طویل میں ہیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی بی) کی ایک رپورٹ میں سندھ پولیس کے حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ صوبے کا شمالی حصہ اغوا برائے تاوان، غیرت کے نام پر قتل، مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی اور کچے کے ڈاکوؤں کا مرکز بن چکا ہے۔ یہ ڈاکو گروپس کی شکل میں زیادہ تر وارداتیں
گھوٹکی، میر پور ماتھیلو، کندھ کوٹ اور جیکب آباد میں کرتے ہیں جن میں تیغانی، جاگیرانی، شر، چھوٹو، بھیو اور بھگوار گروپ زیادہ مشہور ہیںں۔ رپورٹ میں ایس ایس پی گھوٹکی کے حوالے سے بتایا گیا کہ سنہ 2022ء کے دوران 300 اور سنہ 2023ء اور 2024 میں اب تک کم و بیش 350 افراد کو تاوان کی خاطر کچے کے ڈاکوؤں نے اغوا کیا۔ یہ بدنام زمانہ ڈاکو سالانہ اوسطا 400 افراد کو اغوا کرتے ہیں اور وہ اس علاقے میں اغوا برائے تاوان کے ذریعے سالانہ ایک ارب روپے سے زیادہ رقم وصول کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت اور پولیس کے بلند و بانگ دعوؤں اور 250 آپریشنز کے باوجود گزشتہ اتنے عرصہ سے سندھ اور پنجاب کے ان علاقوں میں جاری یہ "ڈاکو راج” آج تک ختم نہیں کیا جا سکا ہے جو کچے اور پکے کے علاقوں سے نکل کر اب شہروں اور ایوانوں تک پھیلاتا جا رہا ہے۔ اسمبلیوں کے ممبران خاموش ہیں اور ابھی تک وزیراعظم شہباز شریف بھی چپ ہیں، جنہوں نے اس سے پہلے ان ڈاکوؤں کے خلاف کاروائی کی تھی!
کچے کے یہ ڈاکو ایک سوچی سمجھی اور منظم حکمت عملی کے تحت لوٹ مار، قتل و غارت اور تاوان کا نظام چلا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ڈاکوؤں کو کوئی وفاقی ادارہ پوچھتا ہے، نہ دو صوبوں کی پولیس ان پر ہاتھ ڈالتی ہے اور نہ ہی سیکورٹی ادارے ان کے خلاف فعال ہو رہے ہیں۔ خدشہ نظر آتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈاکو طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند کالعدم اور مسلح تنظیموں کی طرح ریاست کیلئے کوئ بڑا چیلنج نہ بن جائیں۔ بھلا ریاست سے زیادہ طاقت ور کون ہو سکتا ہے۔ کچے کے ڈاکو کس کھیت کی مولی ہیں کہ انہیں کچلا نہیں جا سکتا۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔