جاپان والا پٹھان

جاپان والا پٹھان

Dubai Naama

جیسے پاکستانی برٹش ہیں، اسی طرح پاکستانی امریکی، پاکستانی کنیڈیئن، پاکستانی کورئین، پاکستانی آسٹریلین اور پاکستانی جاپانی وغیرہ بھی ہیں۔ یہ کہانی مجھے ایک پٹھان نے سنائی تھی جو سیر سپاٹا کر کے جاپان سے تازہ تازہ واپس اسلام آباد پلٹا تھا۔ میں اس پٹھان کا نام بھول گیا ہوں۔ یہ کوئی پینتیس سال پہلے کا واقعہ ہے کہ میں اسلام آباد کی ایک روڈ پر کھڑا تھا۔ انہوں نے مجھے کار میں لفٹ دی اور پھر وہ میرے دوست بن گئے۔ ان دنوں وہ پشاور موڑ کے ایک گھر میں رہتے تھے اور چک شہزاد میں “یاسین چکس” کے نام سے ان کا ایک مرغی فارم بھی تھا۔ شائد اس کے علاوہ وہ جاپان سے گاڑیوں کے امپورٹ کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ میں ان کا نام چونکہ اکثر بھول جاتا تھا اور ان کا نام آج بھی یاد نہیں آیا، تو میں نے اس کالم کا عنوان “جاپان والا پٹھان” رکھ دیا ہے۔

میرا تجربہ ہے کہ انسان کا دماغ اچھے کلمات، نصائح اور واقعات وغیرہ جو دل پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں انہیں تاحیات یاد رکھتا ہے۔ شائد دماغ کی یہ صلاحیت سب سے زیادہ بھاری اور طاقتور ہے کہ انسان جتنا مرضی بھلکھڑ ہو، وہ بار بار ذہن پر زور دے اور کوئی چیز یاد نہ آ رہی ہو مگر وہ اچانک یاد آ جائے تو دماغ کو فورا پتہ چل جاتا ہے کہ بھولی بسری یہ چیز وہی ہے جسے وہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ عین اس موقع پر کچھ یاد آ جائے تو دل کو ایک عجیب سی راحت اور طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ جاپان کے بارے پہلی بار کوئی کہانی میں نے اسی “جاپان والا پٹھان” سے سنی تھی۔ بقول ان کے کہ وہ ٹوکیو سے کسی دوسرے شہر جا رہے تھے۔ جاپان میں یہ اصول ہے کہ آپ جب کسی ہوٹل کو چیک آو’ٹ کرتے ہیں تو ہوٹل کا عملہ آپ سے آپ کی اگلی منزل کا پتہ وصول کر لیتا ہے۔

جب وہ اگلے شہر میں ایک ہوٹل میں ٹھہرے تو کوئی تین گھنٹے بعد ان کے کمرے پر بیل ہوئی اور ہوٹل کے عملہ نے انہیں ایک پیکٹ پکڑایا اور کہا کہ “جناب آپ یہ سوٹ ٹوکیو کے ایک ہوٹل میں بھول آئے تھے!”

ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا کہ جو سوٹ وہ ٹوکیو کے اس ہوٹل میں وافر سمجھ کر ارادتا جھوڑ آئے تھے وہ جاپانیوں نے اسے اگلے شہر میں اس کے ہوٹل تک اس خیال سے پہنچا دیا تھا کہ شائد وہ یہ سوٹ سہوا وہاں بھول گئے تھے۔ 

جاپانی دنیا کی ایمان دار و تہذیب یافتہ اور طاقتور ترین معاشی قوت ایسے ہی نہیں بنے، ان کے کردار کے کچھ اصول و ضوابط ہیں جن پر وہ کبھی سمجھوتہ کرتے ہیں اور نہ ہی اسے انجام دینے میں کوئی کوتاہی کرتے ہیں۔

اسی طرح جاپان والا پٹھان نے ایک اور واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہ کسی شہر میں ایک ٹیکسی میں سفر کر رہے تھے جسے ایک جاپانی نوجوان چلا رہا تھا۔ ایک دوسرے جاپانی نے اس ٹیکسی میں اپنی گاڑی ٹھوک دی۔ نیچے اترے تو دونوں جاپانیوں میں بحث و تکرار ہو گئی جو کچھ طویل ہونے لگی تو ٹیکسی والے جاپانی نے کہا کہ “آپ نے دیکھا نہیں کہ میرے ساتھ ایک غیر ملکی مہمان سفر کر رہا تھا۔” اس کا یہ فقرہ کہنا تھا کہ جیسے دوسرے جاپانی کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ وہ فورا خاموش ہو گیا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر اور جھک کر معافی مانگی اور جاپان والا پٹھان کو اپنا وزٹنگ کارڈ دے کر کہا کہ آپ کو چوٹ تو نہیں لگی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ حادثے کی کچھ چوٹوں کا اثر دیر سے ظاہر ہوتا ہے، آپ کو جب بھی کوئی تکلیف ہو تو مجھ سے فورا رابطہ کرنا، سارا خرچہ میں کروں گا۔

جاپان کے بارے انہوں نے ایک اور واقعہ سنایا کہ وہ جاپان کے ایک سٹور پر جوس خریدنے گئے اور خرید کر ابھی کار پارک میں نہیں پہنچے تھے کہ ان کے پیچھے ایک جاپانی لڑکی بھاگتے بھاگتے آئی اور واپس سٹور میں آنے کو کہا۔ جاپان والا پٹھان نے بتایا کہ سٹور کا پورا عملہ ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے اس سے معافی مانگی، جوس کے نئے ڈبے دیئے اور اتنی ہی قیمت کے کچھ تحائف بھی تھما دیئے اور وضاحت کی کہ یہ آوٹ ڈیٹڈ جوس کے ڈبے منیجر نے پھیکنے کے لیئے الگ نکال کے رکھے تھے جو غلطی سے آپ کو فروخت کر دیئے گئے۔

جاپان والا پٹھان

جاپان میں ہمارے ایک اور دوست خاور کھوکھر صاحب رہتے ہیں۔ ان کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ ہر سال جولائی کے مہینے میں اس اچھے جاپان میں “تاناباتا” کا تہوار منایا جاتا ہے۔ اس تہوار یعنی تاناباتا کو محبت، امید اور خوابوں کے رنگین جذبات کو منانے والا تہوار کہتے ہیں۔ کہانی اس کی کچھ یوں ہے کہ “اوری ہی مے” آسمان کے بادشاہ کی خوبصورت اور سحر انگیز حسن والی شہزادی تھی، اور “ہیکوبوشی” ایک گائے چرانے والا شہزادہ تھا۔

وہ دونوں ملکی وے یعنی کہکشاں دریا کے کنارے محبت کی پینگیں چڑھاتے تھے۔

اس کے کردار پنجاب کی کہانی سوہنی مہینوال سے ملتے جلتے ہیں۔ آسمانوں کے بادشاہ یعنی اوری ہیمے کے باپ کو پتہ چل جانے پر ان کے درمیان وچھوڑا ڈال دیا گیا، انکو دو ستارے بنا کر آسمانوں میں دور پھینک دیا گیا۔

ہر سال ساتویں مہینے کی سات تاریخ کی رات “اوری ہی مے” اور “ہیکوبوشی” کی ملاقات ہوتی ہے، جاپانی روایات میں اگر اس رات بادل چھائے ہوئے ہوں اور کہکشاں نظر نہ آ رہی ہو تو اوری ہی مے کو اپنے شہزادے کو ملنے کے لئے ایک مذید سال انتظار کرنا ہوتا ہے۔ جاپان میں تاناباتا کا تہوار بہت شوق سے منایا جاتا ہے، لمبے لمبے بانس لگائے جاتے ہیں جن پر مستطیل کاغذی پٹیاں جھول رہی ہوتی ہیں،

یہ کاغذی پٹیاں تاناباتا تہوار کی سب سے مشہور علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔

رنگین کاغذ کے سٹریمرز کی لمبی، پتلی پٹیاں، جنکو “تانزاکو” کہا جاتا ہے یہ کاغذات اور دیگر ڈیکوریشن پیس اور اوریگامی (کاغذوں کو موڑ کر ساختیں بنانے کا جاپانی آرٹ) کے ساتھ بانس کی شاخوں سے لٹکائے جاتے ہیں۔

بانس پر اپنی خواہشات یا دعائیں لکھ کر لٹکائی جاتی ہیں، اپنے بچھڑ جانے والے پیاروں سے ملاقات کی خواہش یا علیحدہ ہو جانے والے محبوب سے ملاپ کی دعائیں بھی درج ہوتی ہیں۔ اگر آپ جاپان میں رہتے ہیں تو بے شک آپ کسی بھی مذہب اور قومیت کے ہوں جولائی کی سات تاریخ کو ہونے والی اس ڈیکوریشن اور اور تاناباتا کے تہوار کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔

جاپانی لوگ کردار اور سیرت کی انہی ایماندارانہ اور مبحت بھری خوبیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک منفرد قوم ہیں۔ ان کا مہمانوں اور دوستوں کا جھک کر استقبال کرنے اور ملنے کا ایک عاجزانہ انداز ہے جسے دیکھ کر آنے والا دل پسیج کر رہ جاتا یے۔ وہ کسی اجنبی کو بھی ملتے ہیں تو ان کی ایک خاص مسکراہٹ اور “باڈی لینگویج” ہوتی ہے۔ اسی لیئے جاپان کو محبت کی ابھرتی دنیا کا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ جاپانی شائد دنیا پر دوبارہ حکومت کرنے کا خواب تو نہ دیکھ سکیں مگر وہ آج دلوں پر حکومت کرنے کا اپنا خواب ضرور پورا کر رہے ہیں۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

میں اور ہم کا تصور

اتوار ستمبر 1 , 2024
انسان کے لیے اس کی “میں” دنیا میں سب سے بڑا امتحان ہے، حالانکہ انسان نے حقیقی زندگی “میں” کے گرد ہی گزارنی ہے۔
میں اور ہم کا تصور

مزید دلچسپ تحریریں