پری شان ، پٹھان اور مہمان
اکادمی ادبیات پاکستان کے سابق چیئرمین، گومل یونیورسٹی اور آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر، محقق ، مترجم ، پشتو ، اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر پری شان خٹک جن کا اصل نام غمی خان تھا ، پری شان کے قلمی نام سے لکھتے تھے یعنی بلند شان والا ، عموماً اخبار میں پریشان بھی چھپ جاتا تھا۔
دبئی میں عالمی اردو کانفرنس ہوئی تو پریشان خٹک شرکت کے لیے گئے۔ جیسا کہ دستور ہے مہمانوں کو لینے ڈرائیور کو بھیجا جاتا ہے تو پری شان صاحب کے لیے بھی ایک ڈرائیو کو بھیجا گیا البتہ اس میں اہتمام یہ رکھا گیا کہ ڈرائیور پٹھان بھیجا گیا تاکہ پری شان صاحب کا ہمزبان ہونے کی وجہ سے زیادہ بہتر خدمت کر سکے۔
ڈرائیور پریشان صاحب کے نام کا کارڈ اٹھائے ائرپورٹ جاکر بین الاقوامی آمد کے باہر کھڑا ہوگیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ فلائیٹ اسلام آباد سے ہی ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر کا شکار ہوگئی۔ چناچہ دبئی پہنچے میں بہت دیر ہوگئی۔ بے چارہ ڈرائیور اس دوران کھڑا کھڑا تھک کر چور ہوچکا تھا۔
بالآخر جہاز نے دبئی لینڈ کیا اور پریشان صاحب تمام مراحل سے گزر کر باہر آئے۔ استقبالیہ ہجوم پر نظر دوڑائی تو ایک کارڈ پر اپنا نام دیکھ کر قریب پہنچے اور پٹھان سے کہا “ میں پری شان ہوں”۔ ڈرائیور تھکن سے چور اور غصے بھرا کھڑا تھا۔ اُس نے کہا “ ہم چار گھنٹے سے یہاں خوار ہو رہا ہے اور تم باہر نکلتے ہی پریشان ہو گیا جاؤ مڑا ! اپنا کام کرو ہم تم سے زیادہ پریشان ہے”۔
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |