کلام: ملک محسن عباس
کسی کے بس میں کہاں ہمسری حسینؑ کی ہے
کمال و اوج میں وہ برتری حسینؑ کی ہے
یہاں زمانوں کو سیراب ہوتے دیکھا ہے
بلا کی فیض رساں تشنگی حسینؑ کی ہے
بہشت کی جو طلب ہے تو آ حسینؑ کے پاس
تجھے خبر ہے کہ جنت سخی حسینؑ کی ہے
فساد، ظلم، جفا، غیر کا تعارف ہے
وفا، خلوص، اماں، آشتی حسینؑ کی ہے
دیار عقبی کو جاتے ہیں کربلا سے حُر
بصد خوشی کہ وہ اقلیم بھی حسینؑ کی ہے
پھر ان کے در سے ہمیں تو کہیں نہیں جانا
کہ کائنات میں جب خواجگی حسینؑ کی ہے
میان باطل و حق امتیاز کی خاطر
لکیر خون سے کھینچی گئی حسینؑ کی ہے
میرے خدا تیری توحید کے ثبوت میں بھی
گواہی سب پہ جو بھاری رہی حسینؑ کی ہے
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔