فلسطین ہمارا گال ہے
کالم نگار:۔ سید حبدار قائم
اسرائیل نے غزہ پر ایٹم بم گرانے کی دھمکی دے دی ہے اس دھمکی پر اسرائیل کے اپنے لوگ اسرائیل کی پالیسی پر احتجاج کر رہے ہیں امریکہ میں آج بھی پرزور احتجاج ہوا اور امریکی صدر اور وزیراعظم کو سختی سے عوام نے کہا ہے کہ اگر ووٹ لینا ہے تو امریکہ فلسطین پر حملے بند کراۓ اور اسرائیلی حمایت چھوڑ دے۔
دوسری طرف جہادی تنظیم حماس کے ساتھ مسلمانوں نے ملنا شروع کر دیا ہے اور حماس نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو ناکام بنا دیا ہے اور ان کے بہت سارے ٹینک تباہ کر دیے ہیں ایران ایک شیر کی طرح گرج رہا ہے اور اسرائیلی گیدڑ بھبکیوں کی پرواہ کیے بغیر حزب اللہ کے مجاہد مدد کے لیے بھیج رہا ہے۔
اسرائیلی اپنے ظلم و ستم کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن اس بار حماس نے ان کے دانت کھٹے کر دیے ہیں امریکی شہریوں کے احتجاج کے بعد اب پاکستانی بھی جلوس نکالیں گے اور احتجاج کریں گے ہر شہر میں بینر لٹکاۓ جائیں گے بڑی بڑی تقاریر سننے کو ملیں گی امریکہ اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگیں گے ان کے خلاف بد دعائیں کرائی جائیں گی سلطان صلاح الدین ایوبی کے حملے یاد کیے جائیں گے میڈیا آدھی رپورٹیں سنسر کر کے دکھاۓ گا اور یوں بد دعاوں کی صداوں کے بعد گہری خاموشی چھا جاۓ گی عمل سے کوسوں دور یہ قوم نہ پہلے سنوری تھی نہ اب سنورے گی۔
ہو سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے احتجاج بھی کیا جاۓ اور عرضداشت بھی پیش کی جاۓ کیونکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور یوں فلسطین کی گھر بیٹھے بٹھاۓ مدد ہو جاۓ گی اور یہ جہاد باللسان ہوگا۔
مسلمانوں کے پاس ہتھیاروں کی کمی نہیں لیکن یہ ہتھیار استعمال کے لیے نہیں یہ صرف نمائش اور پریڈ وغیرہ میں دکھانے کے لیے ہیں بندے مارنا کہاں کی مسلمانی ہے فلسطین ہمارا ایک گال ہے اس پر اسرائیلی تھپڑ کے بعد ہم کوئی دوسرا گال پیش کر دیں گے چاہے وہ ایران کی صورت میں ہو یا پاکستان کی صورت میں۔
جہاد باالسیف یا جہاد باالمیزائل ہمارے نصابوں سے دور ہوتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہم انگریزی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں اس لیے ہم مظلوم کی آہ کو نہیں سنتے ہمیں تھپڑ کھانے کا شوق ہے ہمارے پاس چیتے کا جگر اور شاہیں کا تجسس نہیں ہے جس کے متعلق حضرت اقبال نے کہا تھا
ہے یاد مجھے نقطہ ٕ سلمان خوش آہنگ
دنیا نہیں مردان جفاکش کے لیے تنگ
چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس
رہ سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ
لیکن یہ قوم اب بے روشنی کہاں رہ سکتی ہے ویسے اس قوم کو حکمرانوں نے لوڈ شیڈنگ کا تحفہ دے کر بے روشنی کیا ہوا ہے ہمارے اپنے ملک میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے لیکن حکمرانوں کے سامنے یہ ماند پڑ جاتا ہے کیونکہ حکمران دوسرا گال پیش کرنے کے انتظار میں ہیں ویسے اسرائیلیوں نے فلسطین کے سکول ہسپتال اور مساجد اپنے حملوں سے اڑا دیے ہیں اب اسرائیل کو بد دعا سے ڈرانا یا فلسطین کے حق میں دعا کرنا ہی ہمارا منشور ہے فلسطین کا گال پیش کرنے کے بعد اب مسلمان کون سا گال پیش کریں گے اس کا ساری امت کو انتظار رہے گا کیونکہ حاکم ہی وہ بنتا ہے جو امریکہ کا منظورِ نظر ہو ہم بھلا کیسے جہاد باالسیف کر سکتے ہیں ؟ ویسے سیاست دانوں کے خیال میں فلسطین کی حمایت کرنا اپنی حکومت کو ختم کرنے کے مترادف ہے تو پھر یہ پنگا کیوں لیا جاۓ فلسطینیوں نے ہمیں کیا دینا ہے غزہ ہمارے لیے کیسے سود مند ہو سکتا ہے وہاں سے ہمارا کمشن کیسے آ سکتا ہے؟ فلسطین ہمارا گال ہے تو کیا ہوا ہم اسرائیل کو دوسرا گال بھی پیش کر دیں گے اس تھکی ہوٸ قوم کے تھکے ہوۓ لیڈر موت کو بھول گۓ ہیں
لیکن یاد رکھو میرے دیس کے حاکمو !
اگر فلسطین کی مدد جہاد باالسیف نہ کی گئی تو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے منہ دکھاو گے حشر کے دن کیسے شفاعت طلب کرو گے ؟ حضور ﷺ کی امت کے چیتھڑے فلسطین کے در و دیوار پر تمہیں مدد کے لیے پکار رہے ہیں اور تم صرف دعا اور بد دعا سے کام لے رہے ہو کہاں ہے تمہارے اندر کا مسلمان جو مرا ہوا ہے اسے زندہ کرو کیوں تمہاری غیرت کو زنگ لگ گیا ہے۔ تم نے موت کو بھلا دیا ہے تو کوئی بات نہیں موت تمہیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔
Title
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔