فلسطین نوحہ کناں ہے
کالم نگار: سید حبدار قائم
غزہ کا ذرہ ذرہ لہو سے اٹا ہوا ہے فلسطین کی زمین آہیں بھرتی ہوئی ماوں کا گھر بن چکی ہے بچوں کے لاشے بکھرے پڑے ہیں جہادی تنظیم حماس اکیلی کب تک لڑے گی عورتوں کے اجسام کے چیتھڑے درختوں اور دیواروں پر ماتم کر رہے ہیں یہودی ستم گر ظلم کرتے کرتے تھک ہی نہیں رہے انسانی حقوق کے علمبر دار خاموش ہیں عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں بارود کی بدبو زندہ انسانوں کے پھیپھڑے خراب کر رہی ہے گولیوں کی سنسناہٹ بچوں کو خوف زدہ کیے ہوۓ ہے کربلا کا منظر پھر یاد آ رہا ہے حق تعداد میں بہت کم ہے لیکن ستم کے سامنے ڈٹا ہوا ہے پاکستان کے شیعہ سنی سارے علما و فضلا دبکے ہوۓ ہیں سیاستدان جانور کی طرح ووٹ کی راہ ہموار کر رہے ہیں فوج جمہوری حکم کا انتظار کر رہی ہے عوام کہیں کہیں جلوس نکال کا مسلمان ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں کچھ مسلمان اپنی جیب سے کپڑا لے کر اسراٸیل کا جھنڈا بنا کر اوپر پاؤں رکھ کر جہاد بالپاؤں کرتے نظر آ رہے ہیں اسرائیل کو کتا کتا کہہ کر زبانی جہاد بھی ہو رہا ہے بکاؤ میڈیا خاموش ہے امریکہ کے خلاف بول کر یہ مرنا نہیں چاہتا زندہ رہنے کا پروانہ امریکہ کے ہاتھ میں ہے یہودی ہمارے دیس میں اپنی مصنوعات بیچ کر اسرائیل کو اسلحہ اور اشیاۓ خوردونوش پہنچا رہے ہیں جب کہ مسلمان بچے بارود سے اٹی ہوئی آنکھوں سے مسلمانوں کی مدد کے منتظر ہیں مسلمانوں کی دھماکے والی ٹیم مکمل خاموش ہے ان کا جہاد اپنے مسلمان مارنے تک جائز ہے لکھاری حضرات ڈر کے مارے دبکے ہوۓ ہیں کہیں ان کے الفاظ اور قلم پر یہودیوں کا کروز میزائل ہی آ کر نہ گر جائے امت صرف خاموش تماشائی کا کردار کر رہی ہے کسی مسلمان کو کوٸ درد نہیں ہے غزہ میں ظلم ہوتا ہے تو ہو جائے پانی اور خوراک ختم ہوتی ہے تو ہو جائے مسلمان بچوں کے ٹکڑے پرندے نوچتے ہیں تو نوچ لیں ہم تو پاکستانی ہیں ہم تو عراقی ہیں ہم تو افغانی ہیں ہمیں اپنے اپنے ملک کو بچانا ہے اس زبانی گردان کو سنتے سنتے کان پک گئے ہیں مجال ہے کہ کوٸ غیرت مند اٹھا ہو کسی نے کمر کسی ہو اور فلسطین کی مدد کے لیے تڑپا ہو لعنت ہے ایسی زندگیوں پر جس میں مسلمان بھائیوں کی مدد نہ ہو سکے یہ ٹینک گنیں جہاز اور میزائیل تو صرف دشمن کو ڈرانے کے لیے ہیں مفلسی کی چکی میں پسی ہوئی عوام دو روٹی کی تلاش میں پاگل پاگل ہے جہاد تو صرف فلسطینیوں پر واجب ہے باقی مسلمان اس سے مستثنٰی ہیں سعودی عرب کی خاموشی مذہب اسلام کا قتل ہے اور اسلام سے بیزاری کا اعلان ہے جب کہ باقی دنیا کے مسلمان صرف نماز روزے کو دین سمجھتے ہیں اور ایک خاص قسم دوسروں کو کافر کافر کہہ کر عوام کو بے وقوف بنانے کا ہنر جانتی ہے
واہ مسلمانو واہ ! تم اتنے بزدل نکلو گے یہ کبھی سوچا ہی نہیں تھا اپنی تاریخ دیکھو وہ کشتیاں جلانے والے کہاں گئے وہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے کہنے والے کہاں گئے وہ عورت کی چیخ پر ہندوستاں کو تاراج کرنے والے کہاں گئے آج تو یہودی تمہارے بچوں کی چیخ نکلنے سے پہلے ہی اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں فلسطین کا جسم چھلنی ہے اور کرچی کرچی ہے اس سے لہو ٹپک رہا ہے یہودی بربریت نے انسانیت کی دھجیاں اڑا دی ہیں کوٸ ان کا ہاتھ روکنے والا نہیں انسانی حقوق کے نعرے لگانے والے تماشا دیکھ رہے ہیں اقوام متحدہ مر چکی ہے اس کے مردہ جسم سے بدبو نے گلوبل ویلج کے نعرے کو بدبودار کر دیا ہے مگر کون ہے جو اس بدبودار جسم کو جھنجھوڑے اور اس میں زندگی کے رنگ بھر کر اس کو انسانیت کی بقا کے لیے فعال کرے ایسا ہوتا نظر ہی نہیں آ رہا کیونکہ ہم ابھی علیزہ کی ویڈیو لیک ہو گئی ہے پر مکمل جہاد کر رہے ہیں ایک دوسرے کے اعمال پر ہماری کڑی نظر ہے باہر کیا ہو رہا ہے اس سے ہمیں کوٸ سروکار نہیں لیکن افسوس مجھ سمیت سارے مسلمانوں کو ایک دن موت جکڑ لے گی پھر امریکہ کا حکم نہیں بلکہ صرف میرے اللہ کا ہو گا اور وہ بہترین کارساز ہے
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔