فلسطین لہو لہو ہے
کالم نگار :۔ سید حبدار قائم آف غریبوال اٹک
دیسِ شہیداں فلسطین بے اماں ہے اس میں انسانی لاشوں کے ڈھیر اقوام متحدہ پر لعنت کرتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں مروت کفن پوش ہے فلسطینی بچوں کے جسم کے ٹکڑے اتنے سستے نظر آتے ہیں کہ عمارتوں نے ابھی تک ان پر قبضہ کیا ہوا ہے اور جہاں کہیں ان کے جسم کے لوتھڑے نظر آتے ہیں گوشت خور پرندے اور جانور ان کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں عورتوں کے نازک بدن اسرائیلی بارود سے اٹے اور کٹے ہوۓ ہیں جوانوں کی لاشیں پورے ماحول کو سوگوار کر رہی ہیں ایسے حالات میں مسلمانوں کا کیا فرض بنتا ہے اور انسانیت کے علمبرداروں اور منصفوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ کوئی نہیں جانتا۔ اور شاید کوئی جاننا پسند بھی نہیں کرتا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے جری جوان ناپید ہو چکے ہیں یہاں صرف اداروں کے ڈنڈے کڑچھے ، سوشل میڈیا ٹیمیں ہیں جو پاکستان کی ناپاک سیاست میں حصہ لیتے ہیں یا چند نام نہاد سماجی اور مذہبی معاملات پر اپنا حق دکھا کر لوگوں سے نعرے مرواتے ہیں میلاد اور محرم کے پروگراموں پر کھلے عام خرچ بھی ہو رہا ہے اور قربانیاں بھی دی جا رہیں ہیں لیکن فلسطینی بہن کی لٹتی ہوئی عزتیں اور دریدہ لاشیں کسی کو بھی نظر نہیں آتیں۔ قوم ساری آٹے چینی دال اور پٹرول کو رو رہی ہے جب کہ دوسری طرف فلسطین میں عزت و ناموس لٹتی ہوئی ساری دنیا دیکھ رہی ہے سوشل میڈیا پر مسلمان لمبی لمبی دعائیں مانگ رہے ہیں جب کہ عمل سے کوسوں دور ہیں بغداد کے مسلمان بھی لمبی لمبی دعائیں مانگتے رہے اور ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ آج وطن عزیز میں فلسطین کے حق میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جن کا مقصد دنیا کو باور کرانا ہے کہ فلسطین لہو لہو ہے لیکن اس کے باوجود جہادی تنظیمیں کیوں خاموش ہیں ہمارے وطن سے مجاہدین کے دستے کیوں نہیں گۓ مسجد اقصٰی کے میناروں کی صدائیں بلا رہی ہیں فلسطین کی فضا مسلمانوں کے لہو سے مہک رہی ہے لیکن اقوام متحدہ صرف چند ملکوں کی حفاظت کے لیے سرگرم ہے فلسطینی بچوں کی چیخیں ان کو سنائی نہیں دیتیں۔ اور سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ امداد کا تھوڑا سا سامان بھیج کر فلسطین زندہ باد کا نعرہ لگانا ہی کافی نہیں مزہ تو جب ہے کہ پہلا میزائل ایٹمی طاقت پاکستان کی طرف سے اسرائیل پر داغا جاتا اور ٹینک توپیں اور تازہ فوجی دستے غزہ کی پٹی پر فلسطینی بھائییوں کی امداد کے لۓ پہنچ گۓ ہوتے یہودیوں کو پتہ چلتا کہ ہم مسلمانوں کے محافظ ہیں اور یہ مسلمانوں کی طرف بڑھنے والے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے ہم نے اگر ایسا کیا تو ہمیں امداد کون دے گا ؟ کیونکہ ہمارا خزانہ تو شروع سے ہی خالی خالی ہے ہم تنخواہیں کہاں سے دیں گے وغیرہ وغیرہ۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو عطائے مخزنِ اسرارِ ربانی ہیں، جو عطائے مرکزِ انوار رحمانی ہیں، جو عطائے مصدرِ فیوضِ یزدانی ہیں ،جو عطائے قاسمِ برکاتِ حمدانی ہیں، جو عطائے دانشِ برہانی ہیں، جو عطائے مدثر و مزمل ہیں، جو عطائے امواجِ بقا ہیں ، جو عطائے چشمہ ءعلم و حکمت نازش ہیں ، جو عطائے سندِ امامت ہیں، جو عطائے غنچہ ء راز وحدت ہیں، جو عطائے جوہرِ فرد عزت ہیں، جو عطائے ختمِ دور رسالت ہیں، جو عطائے محبوبِ رب العزت ہیں، جو عطائے مالکِ کوثر و جنت ہیں، جو عطائے سلطانِ دینِ ملت ہیں، جو عطائے شمعِ بزم ہدایت ہیں ان کی سیرت کیا کہتی ہے سرکار ﷺ نے بھوک پیاس میں کتنے غزوے لڑے صحابہؓ کرام نے کتنی جنگیں لڑیں کسی جگہ مسلمانوں نے پیٹھ نہیں دکھائی کہیں ان کی معیشت کمزور نہ ہوٸ کیونکہ وہ اللہ کے لیے لڑتے تھے اور ہم ہیں کہ یہودیوں کے پیچھے پیچھے اپنے کندھوں پر "امن کی فاختہ” بٹھا کر امن کے گیت الاپ رہے ہیں یہودی تو شیر کے فولادی پنجے کا احترام کرتے ہیں انہیں امن کی فاختہ سر ڈر نہیں لگتا فلسطینی شہدا کی تعداد میں روز بروز اضافہ لمحہ ٕ فکریہ ہے دنیا کے مسلمان کہاں گۓ جو حضور ﷺ کی اس حدیث کو مانتے تھے
” تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہے اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے "
بہت افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ فلسطینی مائیں نوحہ کناں ہیں فلسطینی بچے مدد کے لیے پکار رہے ہیں لیکن سماعتوں سے عاری ابھی تک اکھٹے نہیں ہوۓ جو فلسطینی چیخوں پر لبیک کہہ سکیں چند فرقہ پرست تنظیمیں اور لوگ سوشل میڈیا پر فساد پھیلاتے نہیں تھکتے مسلمان راکھ کا ڈھیر ثابت ہو چکے ہیں ہو سکتا ہے میرے اس کالم پر کچھ لوگ اعتراض کریں لیکن سچی بات یہی ہے کہ دکھ کی اس گھڑی میں مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں اور جس حالت میں بھی ہیں اسرائیلی مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اپنے ہتھیاروں اور امداد سے لیس ہو کر فلسطینی بھائیوں کی مدد کریں میرے ملک کے شعرا اور ادیب بھی خاموش ہیں یہ طبقہ بھی اپنے قلم کی طاقت سے سوشل میڈیا اخبارات اور ٹی وی چینلز پر احتجاج کرے تاکہ کفار ستم کرنا چھوڑ دیں اور اقوام متحدہ اس ظلم و بربریت کو روکے اور مسلمانوں کا قبلہ آزاد ہو اور پاکستان کا منشور ہی مسلمانوں کا تحفظ ہے تو اسے تحفظ کرنا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر میں نے ایک شاعر رحمان فارس کا کلام پڑھا ہے جس نے مجھے رلا دیا ہے یہ کلام آپ سب قارئین کی بصارتوں کی نذر کرتا ہوں ملاحظہ کیجیے :۔
بچّہ ہے، اس کو یُوں نہ اکیلے کفن میں ڈال
ایک آدھ گُڑیا، چند کھلونے کفن میں ڈال
نازک ہے کونپلوں کی طرح میرا شِیرخوار
سردی بڑی شدید ہے، دُہرے کفن میں ڈال
کپڑے اِسے پسند نہیں ہیں کُھلے کُھلے
چھوٹی سی لاش ہے، اِسے چھوٹے کفن میں ڈال
ننّھا سا ہے یہ پاؤں، وہ چھوٹا سا ہاتھ ہے
میرے جگر کے ٹکڑوں کے ٹکڑے کفن میں ڈال
مُجھ کو بھی گاڑ دے مرے لختِ جگر کے ساتھ
سینے پہ میرے رکھ اِسے، میرے کفن میں ڈال
ڈرتا بہت ہے کیڑے مکوڑوں سے اِس کا دل
کاغذ پہ لکھ یہ بات اور اِس کے کفن میں ڈال
مٹی میں کھیلنے سے لُتھڑ جائے گا سفید
نیلا سجے گا اِس پہ سو نیلے کفن میں ڈال
عیسٰیؑ کی طرح آج کوئی معجزہ دکھا
یہ پھر سے جی اُٹھے، اِسے ایسے کفن میں ڈال
سوتا نہیں ہے یہ مری آغوش کے بغیر
فارس ! مُجھے بھی کاٹ کے اِس کے کفن میں ڈال
اس کلام کے بعد کچھ لکھنا میری بساط سے باہر ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک فلسطینی مسلمانوں کی غائب سے مدد فرماۓ۔آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔