فلسطین: ایک درد، ایک دکھاوا
تحریر محمد ذیشان بٹ
یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے کیا ہے
یہ لوگ دھوپ میں کیوں ہیں شجر کے ہوتے ہوئے
“جب احتجاج بھی مفاد کا ذریعہ بن جائے، تو ظلم کو طاقت ملتی ہے، مظلوم مزید تنہا ہو جاتا ہے۔”
فلسطین کا دکھ نیا نہیں، پرانا ہے۔ مسلسل دہائیوں سے جاری یہ زخم آج بھی تازہ ہے۔ ہر بمباری، ہر شہادت، ہر آنسو ہمیں ایک لمحے کے لیے جھنجھوڑتا ضرور ہے، لیکن پھر ہم اپنی دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ اب ایک نعرہ بن چکا ہے، ایک علامت، جسے جب چاہا استعمال کیا، اور پھر رکھ دیا۔ پاکستانی معاشرہ بھی اسی روش پر چل نکلا ہے۔ یہاں ہر شخص، ہر تنظیم، ہر جماعت، فلسطین کے نام پر صرف اپنی دکان چمکانے میں مصروف نظر آتی ہے۔
سیاسی جماعتیں جلسے کرتی ہیں، بڑی بڑی اسکرینوں پر فلسطینی پرچم لہراتی ہیں، مگر ان کے منشور میں فلسطین کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔ مذہبی تنظیمیں خطبے دیتی ہیں، ریلیاں نکالتی ہیں،فلسطین کے نام پر چندے وصول کر کے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں لیکن ان کا اتحاد صرف سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے، حقیقت میں نہیں۔ مشہور شخصیات، سوشل میڈیا ایکٹوسٹس، یوٹیوبرز، سب فلسطین کے لیے ویڈیوز بناتے ہیں، تاکہ اپنی ریٹنگز حاصل کر سکیں مگر انہی اسرائیلی مصنوعات کے برانڈ ایمبیسیڈر بھی ہوتے ہیں جن کے بائیکاٹ کی تلقین عوام کو کرتے ہیں۔
یہ دوغلا پن صرف فرد کی سطح پر نہیں، حکومتی سطح پر بھی ہے۔ آج جن سے فلسطین کے لیے آواز بلند کرنے کی امید رکھی جا رہی ہے، وہ خود ہی مفاداتی معاہدوں کی پیداوار ہیں۔ جب ان کی اپنی صداقت مشکوک ہو، تو وہ کسی مظلوم کے حق میں کہاں تک جا سکتے ہیں؟ ان سب کو قائد اعظم کا فرمان یاد رکھنا چاہے اسرائیل امت مسلمہ کے دل میں گھونپا گیا خنجر ہے ۔ یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔
اس وقت ہمارا احتجاج صرف "ردعمل” ہے، "عمل” نہی اگر ہم دنیا کی زندہ قوموں کو دیکھیں، تو وہ احتجاج کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ وہ سڑکوں پر صرف نعرے نہیں لگاتیں، منظم تحریکیں چلاتی ہیں۔ ان کے احتجاج میں یکجہتی، قیادت، تسلسل اور حکمت عملی ہوتی ہے۔ وہ احتجاج کو مقصد سے جوڑتی ہیں، نہ کہ مفاد سے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ احتجاج تب مؤثر ہوتا ہے جب:
اس میں صرف جذبات نہیں بلکہ شعور ہو
قیادت خالص اور دیانت دار ہو
قوم خود بیدار ہو، صرف ہدایت کی محتاج نہ ہو
احتجاج محض ریلی یا واک نہ ہو بلکہ پالیسی تبدیلی کا محرک بنے
ہمیں فلسطین کے لیے صرف جذباتی نہیں، عقلی، اخلاقی اور عملی سطح پر کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنا طرزِ زندگی بدلنا ہوگا۔ بائیکاٹ صرف سوشل میڈیا کی حد تک نہیں بلکہ روزمرہ زندگی میں نظر آنا چاہیے۔ ہمیں اپنی اولاد کو فلسطین کی اصل تاریخ سکھانی ہوگی، تاکہ وہ اگلی نسلیں بھی اس کاز کو زندہ رکھ سکیں۔ ہمیں اپنے حکمرانوں سے حقیقی اقدام کا مطالبہ کرنا ہوگا، خالی بیانات نہیں۔ ووٹ دیتے وقت اگر آپ کی سوچ نلکے یا سڑک پکی کروانے تک ہو گئی تو ان حکمرانوں سے توقع مت رکھیں کہ یہ فلسطین کے لیے آواز اٹھائیں گے
یہ وہ وقت ہے جب ہمیں صرف ہجوم نہیں بلکہ قوم بننا ہے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہماری آواز مظلوموں کے ساتھ ہو، تو ہمیں اپنے اندر وہ اخلاص، وحدت اور عمل پیدا کرنا ہوگا جو کسی بھی احتجاج کو زندہ اور طاقتور بنا دیتا ہے۔ اور روزانہ انفرادری طور پر نماز کے بعد گڑگڑا کر اللّہ پاک کے حضور صدق دل سے فلسطین کے لیے یہ کہ کر دعا کریں کے مولا ہم تو بے بس ہیں جس طرح ممکن تھا بایکاٹ بھی کیا مال بھی لگایا توانائی بھی صرف کی تو مولا اپنے غیب سے فلسطین کے مسلمانوں کی مدد فرما بھیج پھر کوئی صلاح الدین ایوبی جو بیت المقدس کو آزاد کروانے
ورنہ ہماری ریلیاں، نعرے، اور ہیش ٹیگز، صرف ایک اور موسمی جذبہ بن کر رہ جائیں گے، اور فلسطین کا زخم یونہی رسے گا، یونہی بہتا رہے گا۔ بات فلسطین تک نہیں رکے گی انڑ نیٹ کا استعمال کر کے گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بھی پڑھ لے تھوڑا نہیں مکمل غور کیجے
Title Image by hosny salah from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |