سلامتی کونسل میں پاکستان کی شمولیت

سلامتی کونسل میں پاکستان کی شمولیت

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی شمولیت ایک تاریخی اور اہم موقع ہے جو عالمی سیاست میں پاکستان کے کردار کو نمایاں کرتا ہے۔ پاکستان نے نئے سال کے آغاز سے اپنی دو سالہ مدت کا آغاز کیا ہے  جو کہ سلامتی کونسل میں اس کی آٹھویں شمولیت ہے۔ جون میں جاپان کی جگہ پاکستان کا انتخاب عمل میں آیا اور جولائی میں پاکستان کو سلامتی کونسل کی صدارت کا اعزاز حاصل ہوگا۔ اس دوران پاکستان کو عالمی تنازعات پر ایجنڈا طے کرنے اور مسائل کو زیر بحث لانے کا موقع ملے گا  جو کہ بین الاقوامی سیاست میں اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کرے گا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد عمل میں آیا تھا تاکہ عالمی امن و سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کونسل کے  کل 15 ارکان ہوتے ہیں جن میں پانچ مستقل اور 10 غیر مستقل ارکان شامل ہیں۔ مستقل ارکان کے پاس ویٹو کا اختیار موجود ہے  جو اکثر عالمی فیصلوں کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان پہلی بار 1952 میں سلامتی کونسل کا رکن بنا اور اس کے بعد مختلف ادوار میں اس حیثیت کو برقرار رکھا۔ اس کا بنیادی مقصد عالمی تنازعات میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا اور ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی کرنا رہا ہے۔

پاکستان کو سلامتی کونسل میں داعش اور القاعدہ پر پابندیاں عائد کرنے والی کمیٹی میں بھی ایک نشست ملی ہے۔ یہ نشست نہ صرف پاکستان کے لیے اہم ہے بلکہ افغانستان کی سرزمین سے جاری دہشت گردی کے مسئلے کے حل کی جانب بھی پیشرفت کا باعث بن سکتی ہے۔ سلامتی کونسل کی صدارت کے دوران پاکستان کو فلسطین، کشمیر، شام اور مشرق وسطیٰ جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا۔ خاص طور پر غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطین و کشمیر کے دیرینہ تنازعات کو اجاگر کرنا پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج اور موقع ہوگا۔

سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو حاصل ویٹو کے اختیار نے اسے اکثر ایک نمائشی ادارہ بنا دیا ہے۔ فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات کا حل نہ ہونا  اور غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں ناکامی  اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں عدل و انصاف کی بنیاد پر تنازعات کے حل کی بات کی گئی ہے  لیکن عملی طور پر یہ ادارہ بڑی طاقتوں کے مفادات کا آلہ کار بن چکا ہے۔

پاکستان کے لیے سلامتی کونسل میں شمولیت ایک اہم موقع ہے  لیکن اس کے ساتھ کئی چیلنجز بھی ہیں۔ بین الاقوامی تنازعات کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی داخلی سیاست اور معیشت کو بھی مستحکم کرنا ہوگا تاکہ وہ عالمی فورمز پر زیادہ موثر کردار ادا کر سکے۔

پاکستان کو فلسطین اور کشمیر کا مقدمہ بھی لڑنا ہوگا۔ پاکستان کو اپنی توانائیاں ان دیرینہ تنازعات کو اجاگر کرنے میں صرف کرنی ہوں گی۔

داعش اور القاعدہ کے اقدامات پر بھی بات کرنی ہوگی۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو عالمی سطح پر تسلیم کروانا ایک اہم چیلنج ہوگا۔

مشرق وسطیٰ کے مسائل بھی اجاگر کرنے ہونگے۔ شام اور مشرق وسطیٰ کے مسائل پر پاکستان کی پوزیشن واضح اور مضبوط ہونی چاہیے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو زیادہ موثر اور جمہوری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مستقل ارکان کے ویٹو کے اختیار کو ختم کیا جائے۔ فیصلے کثرت رائے کی بنیاد پر ہونے چاہئیں تاکہ عالمی مسائل کا حل ممکن ہو سکے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو چاہیے کہ وہ اس مقصد کے لیے سفارتی کوششیں تیز کریں۔

پاکستان کی سلامتی کونسل میں شمولیت اس کے لیے ایک موقع اور ذمہ داری دونوں ہے۔ اگرچہ عالمی سیاست میں بڑی طاقتوں کا غلبہ ایک حقیقت ہے  لیکن پاکستان اپنی سفارتی مہارت اور تاریخی تجربات کی بنیاد پر ان چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ فلسطین، کشمیر  اور دیگر بین الاقوامی تنازعات کو اجاگر کرنے کے لیے پاکستان کو ایک مضبوط اور متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی اصلاحات کے لیے بھی پاکستان کو ایک مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ یہ ادارہ حقیقی معنوں میں عالمی امن و انصاف کا ضامن بن سکے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

مرنجان و مرنج اشعر نور سے ملاقاتوں کا احوال

ہفتہ جنوری 4 , 2025
اشعر نور صاحب کا تعلق کراچی سے ہے جنہیں علم و حکمت گھٹی میں ملی۔ ان کے والد گرامی اور
مرنجان و مرنج اشعر نور سے ملاقاتوں کا احوال

مزید دلچسپ تحریریں