کرغزستان میں پاکستانی طلبہ: موجودہ صورتحال کا تجزیہ
کرغزستان جو 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آزاد ہوا، ایک مرکزی ایشیائی ملک ہے جو شروع دن سے سیاسی اور سماجی اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔ سوویت دور کے بعد سے کرغزستان نے جمہوری اقدار کو اپنانے کی کوشش کی ہے، مگر اندرونی تنازعات اور نسلی کشیدگی نے ملک کو کافی متاثر کیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں، کرغزستان کی یونیورسٹیاں، خصوصاً میڈیکل تعلیم کے حوالے سے، بین الاقوامی طلبہ کے لیے ایک پرکشش مقام بن چکی ہیں۔ پاکستانی طلبہ بھی یہاں بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
موجودہ کشیدہ صورتحال میں کرغزستان میں طلبہ کے درمیان ہونے والے فسادات نے پاکستانی طلبہ کی حفاظت کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ پاکستانی سفیر حسن ضیغم نے موجودہ حالات کے پیش نظر پاکستانی طلبہ کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالات معمول پر آنے تک تمام طلبہ مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطے میں رہیں اور حفاظتی اقدامات کریں۔
حالیہ فسادات کا آغاز کرغز طلبہ کی جانب سے مصری طالبات کو چھیڑنے اور ہراساں کرنے سے ہوا۔ مصری طلبہ کے ردعمل نے کرغز طلبہ میں غم و غصے کو بھڑکایا جس کے نتیجے میں پورے بشکیک میں غیر ملکی طلبہ و طالبات پر حملے شروع ہو گئے۔ ان فسادات میں پاکستانی طلبہ بھی متاثر ہوئے ہیں، اور چند طلبہ کی ہلاکت اور خواتین طلبہ کے ساتھ زیادتی کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔
پاکستانی سفارتخانے نے طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کرغز حکام سے رابطہ کیا ہے اور ہنگامی صورت حال کے لیے ایک رابطہ نمبر جاری کیا ہے۔ پاکستانی سفیر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ طلبہ گھروں میں رہیں اور غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلیں۔
کرغزستان میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، مگر ان کی حفاظت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ نسلی اور ثقافتی اختلافات کی وجہ سے غیر ملکی طلبہ اکثر مقامی طلبہ کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ حالیہ واقعات نے ایک بار پھر ان مسائل کو اجاگر کیا ہے اور تعلیمی اداروں کی جانب سے بہتر حفاظتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ کرغز حکام کے ساتھ مل کر طلبہ کی حفاظت کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے۔ تعلیمی اداروں میں سیکورٹی بڑھائی جائے اور طلبہ کو فوری مدد فراہم کرنے کے لیے خصوصی ہیلپ لائنز اور سروسز قائم کی جائیں۔
بین الاقوامی سطح پر بھی ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تعاون کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ نسلی اور ثقافتی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے پروگرامز شروع کریں اور طلبہ کو باہمی احترام اور برداشت کی تعلیم دیں۔
کرغزستان میں پاکستانی طلبہ کی حالیہ صورتحال نے غیر ملکی طلبہ کی حفاظت کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ پاکستانی سفیر حسن ضیغم کی ہدایات اور سفارتی کوششیں قابل تحسین ہیں، مگر مزید جامع اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور کرغزستان کے درمیان مضبوط سفارتی تعلقات اور تعلیمی اداروں کی مشترکہ کوششیں ہی طلبہ کی حفاظت اور تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کر سکتی ہیں۔ طلبہ کو بھی چاہیے کہ وہ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری طور پر سفارتخانے سے رابطہ کریں۔
Title Image by jorono from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔