پاکستانی امریکی ڈاکٹر غلام مجتبی
میں پاکستان سے ذہانت کے اخراج پر اکثر کڑھتا رہتا ہوں۔ مجھے جب بھی موقع ملتا ہے میں اس موضوع پر ضرور لکھتا ہوں مگر جب تک ملک کے سیاسی و معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوتے اور امن و امان کی صورتحال بحال نہیں ہو جاتی یے محنتی، محب وطن اور ذہین لوگوں کے ملک سے باہر جانے کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ روزگار کی مد میں باہر جانے والے ان پاکستانیوں کو "سمندر پار پاکستانیز” کہا جاتا ہے جو ہر سال پاکستان کو 3ارب ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ دیتے ہیں۔ لیکن یہ زرمبادلہ وطن عزیر میں لانا کوئی قابل فخر بات نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے جو معاشی طور پر خودکفیل نہیں ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کے ایک تو اپنے مسائل ہیں اور جب وہ حل نہیں ہوتے تو بعض دفعہ ان کے دل میں پاکستان سے نفرت پیدا ہوتی ہے دوسرا جب وہ کسی دوسرے ملک کی قومیت لے لیتے ہیں تو پاکستان میں ان کی قومیت دوسرے درجے کی رہ جاتی ہے جس کا کبھی یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کے خلاف جانے کے خطرے سے بھی دو چار ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کوئی سمندر پار پاکستانی وطن کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے بلکہ ان کے خلاف ایک ڈھال بھی بن جاتا ہے تو اس کا شمار قابل فخر پاکستانیوں میں ہوتا ہے۔
امریکہ نیو جرسی میں مقیم پاکستانی امریکی ڈاکٹر غلام مجتبی کا شمار بھی انہی عظیم اور محب وطن پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے امریکہ میں رہ رہے ہیں مگر تحفظ ہمیشہ پاکستان کے مفادات کا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر غلام مجتنی کی کہانی نصف صدی پر مشتمل کیڈٹ کالج سے شروع ہو کر وائٹ ہاو’س میں سٹریٹیجک کمیٹی کے ممبر، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر اور امریکہ میں پاکستان پالیسی انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین بننے کا سفر ہے جو تاحال جاری ہے۔
ڈاکٹر غلام مجتبی 16دسمبر 1955 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام غلام مصطفی ہے جن کا تعلق پٹنہ بہار سے تھا، انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ وہ کلکتہ یونیورسٹی میں مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ریے اور انہوں نے تحریک پاکستان میں اہم رول ادا کیا۔ ڈاکٹر غلام مجتبی کی بیوی کا نام کلثوم مجتبی تھا جو پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بھتیجی تھیں جن کے والد کا نام ڈاکٹر عبدالمجید خان راو’ تھا جو کراچی میں میڈیکل پریکٹیشنر تھے۔ ڈاکٹر غلام مجتبی کی مسز کا انتقال 2016ء میں کینسر کی وجہ سے کراچی میں ہوا۔
ڈاکٹر غلام مجتبی کی فیملی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایشیا میں ان کا کنبہ وہ واحد خاندان ہے جس کی اولاد میں ڈاکٹریٹ کی کل 8ڈگریاں ہیں جبکہ انڈیا 7ڈگریوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
ڈاکٹر غلام مجتبی 1992 سے 1994 تک سندھ کولیشن پارٹی اور صوبائی کیبنٹ میں ایڈوائزر رہے۔ اس سے قبل 1976 میں وہ کراچی یونیورسٹی سٹوڈنٹ یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔ اسی دوران انہوں نے لندن سے ڈاکٹری کے کئ کورسز کیئے، مکہ میں ڈاکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر غلام مجتبی سماجی سیاست دان بھی ہیں جن کی امریکی سیاست میں خدمات کو امریکی کانگریس اور سینٹ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستانہ تعلقات کو قائم رکھنے اور بہت سے مواقع پر پاکستان کو امریکی پابندیوں سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ نیویارک میں ایک لیڈنگ کمیونٹی فارمیسی کی چیئن کے مالک ہیں۔ میڈیکل کے شعبے پر ان کے 500 سے زیادہ تحقیقی مقالے اور مضامین شائع ہوئے ہیں۔ انہوں نے سائنس کی روشنی میں واقعہ معراج پر بھی ایک اہم کتاب لکھی ہے۔
عرب حکمرانوں سے ان کے خصوصی دوستانہ تعلقات ہیں جبکہ انہیں دو بار "آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس” (OIC) کے جنرل سیکرٹری بننے کی بھی آفر ہوئی جس سے انہوں نے بوجوہ انکار کیا۔
میری ڈاکٹر غلام مجتبی سے 2018ء میں ابوظہبی اتحاد ٹاورز میں پہلی ملاقات ہوئی۔ میرے ساتھ عام لوگ پارٹی یو اے ای کے صدر فضل الرحمن اور کوارڈینیٹر عطاءالرحمان بھی تھے۔ ہم صبح 9بجے اکٹھے ہوئے، ناشتہ کیا، لنچ کیا اور پھر شام 5بجے کی چائے بھی اکٹھے پی۔اس دوران ڈاکٹر غلام مجتبی صاحب سے سیاست، مزہب اور ملکی قیادت پر سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ یہ ملاقات 8گھنٹے کی تھی جو میری زندگی کی آج تک کی طویل ترین ملاقات ہے۔
ڈاکٹر صاحب پرکشش، متمدن اور علمی شخصیت ہیں۔ ان کی گفتگو اتنی شیریں ہے کہ ان کے ساتھ گزرے یہ آٹھ گھنٹے آج بھی ایک لمحہ محسوس ہوتے ہیں۔
ان سے جتنی دیر گفتتو ہوئی وہ ہمہ وقت پاکستانی سیاست و قیادت سے شکوہ کناں نظر آئے۔ تب سے آج تک ان کے ساتھ وٹس ایپ پر روزانہ رابطہ ہوتا ہے۔ وہ مجھ سے اپنی تحریریں شیئر کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں زمینی حقائق پر مبنی معلومات ہوتی ہیں جن سے پاکستانیت کا درد جھلکتا ہے۔
کسی ملک کی ترقی کا راز اس کی مخلص اور تعلیم یافتہ قیادت سے ہوتا ہے جس کے پاس ملک کو چلانے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا ویژن ہو۔ ڈاکٹر غلام مجتبی جیسے اہل اور قابل فخر لوگ ملک سے باہر بیٹھے ہیں اور ملک کو گزشتہ 35سالوں سے ایسی قیادتیں چلاتی آ رہی ہیں جن کا محور ہی ملکی وسائل کو لوٹنا اور چور بازاری کا بازار گرم رکھنا ہے۔
جب تک ڈاکٹر غلام مجتبی جیسے قابل گوہر سات سمندر پار ہیں اور زہانت کا یہ اخراج یونہی جاری رہتا ہے یا جب تک اسٹیبلشمنٹ ملک کو چوسنے والی جونکوں پر ہاتھ نہیں ڈالتی ملک کا ایسے ہی ستیاناس ہوتا رہے گا۔ نجانے کتنی ہی ایسی وفادار اور ذہین و فطین دیگر شخصیات ہیں جو پاکستان سے مایوس ہو کر باہر چلی جاتی ہیں۔ ان سب کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر انہیں محض اس لیئے موقع نہیں دیا جاتا کہ وہ ملک و قوم سے مخلص ہیں۔
Title Image by Darko Stojanovic from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔