مختیارا اور چن ماھی

( پی ڈی ایم اور زرداری سیاست پر ایک تبصرہ )

تبصرہ نگار :
سیدزادہ سخاوت بخاری

مختیارا ایک متوسط زمیندار گھرانے میں پیدا ہوا ۔ علاقائی اور مقامی اسکولوں میں واجبی سی تعلیم حاصل کی اور لڑکپن میں گاوں چھوڑ کر کراچی چلا گیا ۔

کراچی میں اس کے والد کا ایک تھیئیٹر یا سینماء ھال تھا جس کی نگرانی اس کے سپرد کی گئی ۔ اس زمانے میں وی سی آر تھا نہ ہی ٹیلیوژن ، موبائل فون تھا نہ کمپیوٹر لھذا عام و خاص تفریح کے لئے سینماوں کا رخ کرتے اور تقسیم ھند سے پہلے کی پرانی فلموں سے لطف اندوز ہوتے ۔ نئی نسل کے علم کے لئے عرض ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد ایک زمانے تک بمبئی اور کلکتہ کی بنی ہوئی فلمیں پاکستان بھر کے سینماوں میں نمائیش کے لئے پیش کی جاتی رہیں ۔ غالبا 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد کہیں ان پر پابندی عائد ہوئی ۔

مختیارا اور چن ماھی

ہمارے شھر ہی کیا بلکہ ہر شھر کی دیواروں پر ، بابل ، بیجوباورا ، آن ، برسات ، آنکھ مچولی ، کالیداس ، زندگی یا طوفان اور کئی دیگر فلموں کے اشتھار جا بجا نظر آتے تھے ۔ دلیپ کمار ، راج کپور ، سنیل دت ، اشوک کمار ، جانی واکر ، ممتاذ ، وحیدہ رحمان ، مدھو بالا ، کامنی کوشل ، ٹن ٹن ، نورجہاں ، گوپ اور کئی دیگر فلمی ستارے شائقین فلم کے پسندیدہ اداکار تھے ۔ اس ماحول میں سینماوں پر اسقدر بھیڑ جمع ہوجاتی تھی کہ کھڑکی سے ٹکٹ حاصل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی ۔ جوان اور ھٹے کٹے تو لڑ جھگڑ کر کھڑکی سے ٹکٹ حاصل کرلیتے لیکن کم زور اور قدرے شریف فلم بین کسی بلیکیئے کو تلاش کرکے تھوڑی سی مہنگی ٹکٹ خرید کر اپنا شوق پورا کرتے ۔

آپ اندازہ کریں ، فلم انڈسٹری والے اپنے اشتہاروں میں علی اعلان دعوے کرتے کہ ہماری فلم نے ساتواں
” کھڑکی توڑ ” ھفتہ پورا کرلیا ۔ فلم اتنی جاندار ہے کہ ٹکٹیں بلیک ہورہی ہیں ۔ اس زمانے میں فلم کی کامیابی کے لئے ایسی اصطلاحیں استعمال کرنا معیوب نہیں بلکہ مقام فخر سمجھا جاتا تھا ۔ یہ تھا ماحول جس میں مختیارا کراچی آیا اور صرف آیا ہی نہیں بلکہ ایک سینماء کا انچارج بنا ۔

مختیارے نے بلیکیوں کا ایک باقائدہ گروہ ترتیب دیا اور ٹکٹیں بلیک کرنا شروع کیں ۔ اگر سینماء ھال کی چار سو سیٹیں ہیں تو کھڑکی والے بابو کو فقط دو سو ٹکٹیں فروخت کے لئے ایشو کی گئیں اور باقی دو سو لیاری کے نوجوانوں کو تھما دی گئیں جنھیں ہر ٹکٹ پر کمیشن ملتی تھی ۔ یاد رکھیں بلیکیا بنیادی طور پر اوباش اور بدمعاش ہی ہوتا ہے لیکن ڈیل کرتے وقت نہائت شریفانہ رویہ اختیار کرکے گاھک سے ڈیل کرتا ہے تاکہ دیھاڑی لگا سکے ۔

پی ڈی ایم اور زرداری سیاست پر ایک تبصرہ

مختیارے نے اس دھندے میں جہاں دولت کمائی ، یہ ھنر بھی سیکھا کہ مال کمانا ہے تو گاھک سے بدمعاشی نہیں کرنی بلکہ پیار محبت سے پانچ روپے کی ٹکٹ دس میں بیچ دینی ہے ۔

مختیارا اگر آج یہ کہے کہ
ہم سے سیکھو
تو آپ اس کی بات کو رد نہیں کرسکتے ۔ اس نے یہ سب داو پیچ لڑکپن میں سیکھ لئے تھے کہ
مال کیسے بنانا ہے
گاھک یعنی فلم بین سے کیسے ڈیل کرنا ہے
اور
اگر پولیس چھاپہ ماردے
تو
اس سے کیسے نمٹنا ہے
وہ جانتا ہے
پولیس سے بگاڑ کر وہ
بلیک کا دھندہ نہیں کرسکتا ۔
اگر کبھی مقدمہ بن جائے
تو
عدالتوں پہ پتھر برسا کر
یا
جج صاحب کو گالی دے کر جان نہیں چھڑا سکتا
اس لئے وہ پولیس ، انتظامیہ اور عدالتوں سمیت سب کو راضی رکھ کر آج اس مقام پر پہنچا ہے
کہ
بڑے بڑے ساھوکار اس کے پیچھے ھاتھ باندھے کھڑے ہیں ۔

دوسری طرف ایک چن ماھی ہیں
جو پنجاب میں پلے بڑھے
سینماء چلایا نہیں
بلکہ سینماء جاکر سلطان راھی اور مصطفے قریشی کی فلمیں دیکھیں
ان کے خیال سے گنڈاسا اور بھڑک ہی کامیابی کا راز ہے
لھذا اتنی بھڑکیں ماریں کہ
اب گھر کے رہے نہ گھاٹ کے
جبکہ
مختیارا بڑھک بھی سوچ سمجھ کر مارتا ہے اور اگر حالات ناسازگار دیکھے تو چودھری صاحب کے پاوں پکڑنے میں عار محسوس نہیں کرتا ۔

حالیہ دنوں میں مختیارے نے جو چال بدلی ہے وہ کوئی نہ سمجھ آنیوالی بات نہیں بلکہ بڑے چودھری صاحب نے اسے پیغام بھیجا ہے کہ اگر دھندہ کرنا ہے تو چن ماھی کو ایک دھوبی پٹکا لگاو ۔ اس گستاخ کی بھڑکیں سن سن کر ہم تنگ آچکے ہیں ۔ چونکہ مختیارا یہ بات جانتا ہے کہ پولیس ( اسٹیبلشمنٹ ) سے بگاڑ کر دھندہ نہیں چلایا جاسکتا لھذا اس نے ان کی بات مان کر ایسی چال چلی کہ
اب ماسی مصیبتے بھی اسے برا بھلا کہنے کی بجائے اپنا اباجی کہنے پر مجبور ہوگئیں ۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

لافانی شخصیت پرنس عطاء کی خوشبو اور سول اعزاز

جمعرات مارچ 18 , 2021
پرنس ملک عطاء محمد خان نواب آف کوٹ فتح خان(ضلع اٹک) ایسے ہی کردار کا نام ہے جس کی شخصیت کھیل و ثقافت کی خوشبو پوری دنیا میں تھی
لافانی شخصیت پرنس عطاء کی خوشبو اور سول اعزاز

مزید دلچسپ تحریریں