پاکستان اور بیلاروس کے تعلقات
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
مملکت خدادا پاکستان اور بیلاروس کے درمیان تجارتی تعلقات کی تاریخ تین دہائیوں پر محیط ہے، جن کی بنیاد 1994 میں سفارتی تعلقات کے قیام سے رکھی گئی تھی۔ ان تعلقات میں اقتصادی، صنعتی، زراعت اور دفاعی شعبوں میں بڑھتا ہوا تعاون اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کے 68 رکنی وفد کا حالیہ تین روزہ دورہ ان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
بیلاروس کا قیام 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد عمل میں آیا۔ یہ ملک اپنی زراعت، صنعت، اور جدید مشینری میں مہارت کی وجہ سے وسطی ایشیا کی ایک ابھرتی ہوئی ریاست بن چکا ہے۔ پاکستان نے بیلاروس کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے گزشتہ سالوں میں کئی اقدامات کیے، جن میں وزارتی سطح کے دورے اور مختلف معاہدے شامل ہیں۔ خاص طور پر فروری 2024 میں دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کے 30 سال مکمل ہونے کی تقریب اس دوستی کی ایک شاندار جھلک تھی۔
حالیہ دورے کے دوران متعدد معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے جانے کی توقع ہے، جن میں زراعت، صنعت، سرمایہ کاری، اور مواصلات کے شعبے نمایاں ہیں۔ خاص طور پر زرعی مشینری، جیسے ٹریکٹروں کی تیاری، دونوں ممالک کے لیے ایک اہم اقتصادی موقع ہے۔
بیلاروس کی جانب سے ایسے وفود کا شامل ہونا، جو تاجروں، صنعت کاروں، اور اعلیٰ حکام پر مشتمل ہیں، دونوں ممالک کے درمیان براہ راست رابطے اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے موقع پر ہونے والی ملاقاتیں دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں کا بروقت اور مکمل نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ معاہدوں کی عملی تکمیل ہی ان تعلقات کے پائیدار ہونے کی ضمانت دے سکتی ہے۔ اس کے لیے ایک مشترکہ فالو اپ کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے۔
دفاع اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مستقل منصوبہ بندی اور مشترکہ تحقیقاتی منصوبے شروع کیے جائیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو بڑھانے کے لیے تجارتی میلوں، نمائشوں، اور کاروباری کانفرنسوں کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔
دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور تعلیمی تبادلوں کو فروغ دے کر عوامی سطح پر رابطے بڑھائے جا سکتے ہیں، جو تعلقات میں دیرپا استحکام پیدا کریں گے۔
دونوں ممالک کے درمیاں ویزہ پابندیوں میں نرمی کے اقدامات سے کاروباری اور سیاحتی سرگرمیوں میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان اور بیلاروس کے تعلقات میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جو پیشرفت ہوئی ہے، وہ ان دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد اور تعاون کی عکاس ہے۔ حالیہ دورہ ان تعلقات کو مزید مضبوط اور کثیرالجہتی بنانے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ ان تعلقات کی پائیداری اور ترقی کا انحصار معاہدوں کی عملی تکمیل اور نئے شعبوں میں تعاون کے امکانات تلاش کرنے پر ہے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔