پاکستان ایک زرعی ملک اور اناج کا بحران
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
مملکت خدادا د پاکستان جسے ایک زرعی ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہے، طویل عرصے سے اپنی وافر زرخیزی کے باعث گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار میں خودکفیل رہا ہے۔ لیکن بعض سابقہ حکومتوں کی جانب سے ان اجناس کی خریداری، ذخیرہ اندوزی اور منصفانہ تقسیم کے معاملات میں ناکامی کی وجہ سے غذائی تحفظ کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ فصلوں کی بروقت خریداری اور مناسب قیمتوں کی فراہمی کا فقدان ہمیشہ سے ہی کسانوں کے لئے ایک مسئلہ رہا ہے، جو کہ پاکستانی زراعت کے مستقل بحران کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔
پاکستان کا زرعی نظام قیام پاکستان کے بعد سے ہی چند بنیادی مسائل کا شکار رہا ہے۔ کسانوں کی زمینوں پر دسترس، قرضوں کا بوجھ، جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی اور مناسب مارکیٹ تک رسائی نہ ہونے کے باعث کسان کافی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان مسائل کے ساتھ ذخیرہ اندوزی کا ناکافی انتظام اور موسمیاتی تبدیلیاں بھی شامل ہیں جو ملک میں زرعی شعبے پر گہرے اثرات ڈال رہی ہیں۔ یہ مسائل کئی دہائیوں سے موجود ہیں لیکن ان کا مستقل حل نکالنے میں حکومتیں ہمیشہ سے ہی ناکام رہی ہیں۔
1970 اور 1980 کی دہائیوں میں حکومتی پالیسیوں نے کچھ حد تک زرعی پیداوار میں بہتری لانے کی کوشش کی تھی۔ تاہم بعد میں حکومتی سطح پر بے ضابطگیاں اور نااہلی حد سے بڑھنے لگی، جس نے زراعت کو ایک کمزور معیشتی ستون بنا دیا۔ زرعی پیداوار میں خود کفالت کی بجائے بیرونی انحصار بڑھتا گیا اور نجی شعبے کی جانب سے غذائی اجناس کی درآمد میں اضافہ ہوا جس سے زرعی بحران مزید پیچیدہ ہو گیا۔
آج پاکستان کا کسان مہنگی کھاد، بیج، پانی، ڈیزل اور بجلی جیسے وسائل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے کافی پریشان ہیں۔ یہ قیمتیں گزشتہ دو سالوں میں کئی گنا بڑھ چکی ہیں، جبکہ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ گندم کی قیمت کسانوں کو پوری طرح نہیں مل رہی۔ اسی وجہ سے کسان اگلے ربیع سیزن میں گندم کاشت کرنے سے ہچکچاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سپلائز کارپوریشن (پاسکو) جو گندم کے ذخائر برقرار رکھنے اور قیمتوں کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے خود ایک بدانتظامی کا شکار ہے۔ حالیہ نگران حکومت کے دوران ملک میں وافر مقدار میں گندم کی موجودگی کے باوجود نجی شعبے کو لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس اقدام سے قومی خزانے کو کم از کم تین سو ارب روپے کا نقصان پہنچا اور غذائی اجناس کے ذخیرہ اندوزی کے بحران کو مزید ہوا ملی۔ اس معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے تحقیقات کے لیے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کی رپورٹ تاحال سامنے نہیں آئی۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی سینیٹر ایمل ولی خان کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ہے جس کے نتائج آنا ابھی باقی ہیں۔
زرعی نظام کے بنیادی ڈھانچے میں مسائل اور نااہلی کے باعث گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار میں کمی ہونے لگی ہے۔ کسانوں کو نہ صرف اپنی محنت کا منصفانہ معاوضہ نہیں ملتا بلکہ قیمتوں میں عدم استحکام کے باعث وہ غذائی اجناس کی پیداوار پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں غذائی تحفظ کے لیے ایک منظم پالیسی اور کسانوں کے لیے مؤثر معاوضے کے نظام کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ ملک میں غذائی قلت اور زرعی شعبے کے مسائل کو مستقل طور پر حل کیا جا سکے۔
پاکستان کی زرعی پالیسی میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف کسانوں کی مشکلات حل ہوں بلکہ غذائی اجناس کے ذخائر بھی محفوظ کیے جا سکیں۔ ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے پاسکو جیسے ادارے کو مؤثر بنایا جانا ضروری ہے اور کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ مراعات دی جائیں تاکہ ان کی پیداوار اور معیشت کو فروغ دیا جا سکے
Title Image by Nicky ❤️🌿🐞🌿❤️ from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔