کچھ واقعات اور سانحات دل پر نقش ہو جاتے ہیں، انسان چاہے بھی تو ان کو بھلا سکتا ہے اور نہ ہی دل اور روح سے ان کا نقش مٹا سکتا ہے۔
پوچا دکان سے بھی نہیں ملتا تھا۔ ٹکیاں کے پاس پوچے کی پہاڑی گاڑ تھی ۔یہ جگہ ہمارے گھر سے دو کلو میٹر دور تھی ۔ مہینے دو کے بعد اس گاڑ سے باجماعت پوچا لاتے
نکہ کلاں میں عید الفطر کے موقع پہ اعوان فارم ھاؤس میں ایک علاقائی موسیقی کا پروگرام منعقد کیا گیا
1961 میں سکول لاہنی مسجد کے پاس تھا۔ اس کے دو حصے تھے ۔ اتیا / اُتلا سکول اور تھلیا سکول۔
مسلم اُمہ کی بہت بڑی تعداد اس تصور کو سینے سے لگا کر جی رہی ہے کہ ایک نہ ایک روز سورج مسلمانوں کے عروج کی نوید لے کر ضرور ابھرے گا
اپنے عہد کے باشعور شخص کو پہچاننا، اس کی خدمات کا اعتراف کرنا اور اس کی تعظیم کرنا تہذیب یافتہ معاشروں اور صاحبِ بصیرت اشخاص کا خاصا ہے۔
عاصم بخاری کا تعلق میانوالی سے ہے ۔ تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں ۔ جدید لب و لہجہ کی منفرد پہچان رکھتے ہیں ۔
یہ کہانی ایک فرد سے لے کر عام معاشرے اور ہماری اشرافیہ تک ہم سب پر کسی نہ کسی حوالے سے صادق آتی ہے۔ بات صرف اپنے کردار کی کیفیات
پاکستان کا معرض وجود میں آنا آزادی کی پہلی منزل تھی اور دوسری منزل ہماری غلامی سے مکمل آزادی کے لئے ہمارے ضمیروں کا بدلنا تھا