14 جنوری 1943’…سیکنڈ ائیر کا نتیجہ دیکھا ۔تین لڑکے detain کر لئے ۔آج ڈاکخانے میں چالیس روپے سے حساب کھلوایا ہے
رئیس صدیقی کا تعلق لکھنؤ سے ہے، ہندوستان کے ادبی اور ثقافتی منظر نامے کی ایک ممتاز شخصیت ہیں۔
شعرا پر نعتیہ کلام کا الہام خداٸے بزرگ و برتر کی طرف سے ہوتا ہے یہ کسی کی اپنی مجال نہیں ہوتی حضورِ اکرم ﷺ سے عشق و وارفتگی فکری عفت کی
ہر وہ عالم صوفی کہلانے کا مستحق ہے جس کا علم دوسرے عام انسانوں کے لیئے نفع بخش اور باعث برکت ثابت ہو۔ یورپ کی سائنسی لیبارٹریوں
عطا محمد عطا کی سرائیکی نظم ” اساں کٹھے ہیں” اپنی بہترین اشعار کی بھرپور سیریز میں اتحاد، امید، لچک اور معاشرتی تبصرے کے
25 اکتوبر 1942 کچھ لوگوں کو رسمی callکرنے کے لیے گیا۔ایس پی، افسر مال اور ممتاز وکیل سے ملاقات نہیں ہوئی ۔
انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان کے زیر اہتمام شایع شدہ محمد ندیم قاصر اچوی کی تازہ ترین ادبی کاوش، “قافیہ شناسی” سرائیکی زبان میں
ڈاکٹر عارفہ شہزاد کی کتاب “انگریزی میں اردو ادب کی تنقید” انگریزی زبان کے دائرہ کار میں اردو ادب کے تنقیدی تجزیے کا احاطہ کرتی ہے۔
کسی ملک یا ریاست کے نظم و نسق کو چلانے کا فرض نبھانا ذمہ داری اٹھانے کا ایک بہت بڑا بھاری بوجھ ہے۔
برصغیر پاک و ہند کی ‘ٹیکسلا یونیورسٹی’ جس کے کھنڈرات موجودہ پاکستان میں ہیں، یہ قدامت کے اعتبار سے بلونیا یونیورسٹی سے زیادہ پرانی ہے، مگر بلونیا یونیورسٹی